ہمارے ملک میں ایک عجیب و غریب مخلوق بستی ہے۔ یہ مخلوق بظاہر مہذب، پڑھی لکھی اور خوشحال ہے، رو پیٹ کے انگریزی بھی بول لیتی ہے اور شاید اسی لیے خود کو کلچرڈ بھی سمجھتی ہے۔
یہ مخلوق بیک وقت لبرل بھی ہے اور مذہبی بھی، یہ میوزک کنسرٹ پر بھی شوق سے جاتی ہے اور دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔
اس مخلوق کا ایک پیر امریکہ میں ہوتا ہے تو دوسرا استنبول میں، ارطغرل غازی ان کا ہیرو ہے اور ٹام کروز ان کا ’کرش‘۔
پاکستان کی تاریخ کے بارے میں اِس مخلوق کا مطالعہ اتنا ہی ہے جتنا ڈونلڈ ٹرمپ کا مگر اس کے باوجود اس مخلوق کا اصرار ہے کہ تاریخ پاکستان پر صرف ان ہی کی رائے صائب ہے۔
ان کا خیال ہے کہ تاریخ ایوب خان کے ’سنہری دور‘ سے شروع ہوئی تھی اور اسی کے ساتھ ختم بھی ہو گئی تھی، بعد میں خوشحالی کے کچھ پیچز آئے مگر بات نہیں بن پائی تھی۔
اس کے بعد یہ مخلوق اگر کسی دور کے گُن گاتی ہے تو وہ پرویز مشرف کی آمریت کا دور ہے۔
اس مخلوق کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کسی ملک کا آئین کیا ہوتا ہے؟ پارلیمانی نظام کیسے کام کرتا ہے؟ عدالتوں کا دائرہ کار کیا ہوتا ہے؟ مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا کیا نظریہ ہے؟ خارجہ پالیسی کیسے تشکیل پاتی ہے؟ یا ملکی مفادات کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
اس مخلوق کے خیال میں آئین کوئی ایسی ضروری دستاویز نہیں، آئین کے بغیر بھی ملک چلایا جا سکتا ہے اور یہ خیال ان کے دماغ میں آمریت کے ادوار کی وجہ سے راسخ ہوا ہے جب آئین معطل کرکے بھی ملک کا نظم و نسق چلانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
یہ مخلوق چوں کہ فکر معاش سے بے نیاز ہے اس لیے خود کو غریب غربا اور ’جاہل‘ عوام سے افضل سمجھتی ہے، خود کو برتر سمجھنے کی ایک وجہ انگریزی بھی ہے، اِس مخلوق کا خیال ہے کہ جو انگریزی نہیں بول سکتا وہ ڈنگر ہے، اِس مخلوق کا بس چلے تو عید کی نماز بھی انگریزی میں پڑھے۔
جس مخلوق کی میں بات کر رہا ہوں اس میں آج کل پاکستانی اداکاروں اور اداکاراؤں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
یہ لوگ چوں کہ جدید میڈیا کی پیداوار ہیں اس لیے انگلش ونگلش بول لیتے ہیں۔ بھارتی اداکاروں کو دیکھ کر انہوں نے یہ بات سیکھ لی ہے کہ پاکستان میں اگر اپنی ’عجت‘ کروانی ہے تو انگریزی بولنی پڑے گی۔
دوسری بات انہوں نے یہ سیکھی ہے کہ گاہے بگاہے ملکی معاملات پر بھی تبصرہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ لوگ آپ کو صرف اداکار نہیں بلکہ ’ایکٹوسٹ‘ سمجھیں اور فی زمانہ ایکٹوسٹ ہونا کافی ’پرکشش‘ بات ہے۔
مسئلہ اس مخلوق کا یہ ہے کہ صرف ان معاملات پر بولتی ہےجن پر بولنے سے کسی کے مفاد پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ کسی طاقتور کو للکارنا نہیں پڑتا اور کسی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا پڑتا مثلاً اِس مخلوق میں سے کوئی اداکارہ اٹھے گی اور بھارتی کشمیر کی جدوجہد آزادی پر بیان داغ دے گی، دوسری اٹھے گی اور ریپ کے خلاف واک میں شامل ہو کر احتجاج ریکارڈ کروا دے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگلے روز اِن دونوں اداکاراؤں کی تصاویر بظاہر بغیر میک اپ کے لیکن حقیقت میں ہلکے میک اپ کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوں گی جس میں انہوں نے کوئی بینر اٹھایا ہو گا اور یوں لوگ کہیں گے کہ ’واہ لگتا ہے کہ یہ وہاں کی نہیں ہیں۔‘
آج کل یہ مخلوق کچھ کچھ سیاست میں بھی منہ مارنے لگی ہے۔ وجہ اس کی کچھ بھی ہو مگر مجھے اِس بات کی خوشی ہے اِس لیے کہ کم از کم اِس مخلوق نے غلط یا صحیح کوئی موقف تو اپنایا۔
اس سے پہلے تو یہ مخلوق اپنے گوشہ عافیت سے ہی نہیں نکلتی تھی۔ خیر اب بھی اس مخلوق نے کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی لاپتہ افراد کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ یہ فقط جوش جذبات میں آ کر ٹویٹس کر رہی ہے جنہیں پڑھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ اِس مخلوق نے دسویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب کے بعد سوشل سائنس کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
اِن کا دماغ اسی کتاب میں بند ہے اور اب تک نہیں کھلا۔ انہیں کسی نے یہ بتایا ہی نہیں کہ ملک کا نظام آئین کے تحت کیسے چلایا جاتا ہے اور اگر آئین کی خلاف ورزی ہو تو ملک کس طرح بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنے موقف کےحق میں ان کے ’دلائل‘ بالکل طالبانی نوعیت کے ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ اگر تم ہم سے متفق نہیں تو غدار ہو۔
اس مخلوق کی ذہنی تربیت ویسے تو بہت مشکل کام ہے کیوں کہ جیسے کہ میں نے بتایا اِن کا ذہن میٹرک کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں بند ہے جسے کھولنا تقریباً نا ممکنات میں سے ہے۔
مگر مایوسی کفر ہے اور میں اللہ کی ذات سے ناامید نہیں۔ اِس لیے میرا اِس مخلوق کو مخلصانہ اور مفت مشورہ ہے کہ یہ آئین پاکستان کی کتاب انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کریں اور پڑھنا شروع کر دیں۔
اس کام میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگے گا، اس کے بعد یہ امریکہ اور برطانیہ کے بالترتیب صدارتی اور پارلیمانی نظام کا بھی مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ کیسے یہ ممالک اپنے ملک میں آئین کو ایک مقدس دستاویز سمجھتے ہیں اور کس طرح وہاں ہر حال میں آئین کی پاسداری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
اگر اس مخلوق میں سے کوئی ایک بندہ بھی یہ کام کر گیا تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت اکارت نہیں گئی۔ لیکن یہ میرے مشورے کا پہلا حصہ ہے۔
مشورے کا دوسرا حصہ حکومت کے لیے ہے اور وہ یہ کہ ہمارے مطالعہ پاکستان کے نصاب میں پارلیمانی نظام حکومت سے متعلق ابواب شامل کیے جائیں اور طلبہ کو بتایا جائے کہ ملک میں حکومت کیسے منتخب کی جاتی ہے۔ انتخابات کیسے کروائے جاتے ہیں۔ کامیاب جمہوری پارلیمانی نظام کیسا ہوتا ہے، اور اسے چلانے میں سیاسی جماعتوں اور عوام کا کردار کیا ہوتا ہے، آئین کی خلاف ورزی کا کیا مطلب ہوتا ہے، اور مہذب ممالک میں یہ کتنا سنگین جرم سمجھاتا جاتا ہے۔
جب ہمارے ملک کے طلبہ کو مطالعہ پاکستان میں تواتر کے ساتھ یہ سب پڑھایا جائے گا تو اس روز انہیں سمجھ آ جائے گا کہ محض انگریزی میں ٹویٹ کرنے سے کوئی کلچرڈ یا لبرل نہیں ہو جاتا بلکہ آئین سے وفاداری مہذب ہونے کی اصل نشانی ہے۔