عید کی رونق تمام ہوئی اور اب سیاسی گہما گہمی کا سلسلہ وہیں سے جُڑے گا جہاں موقوف ہوا تھا۔
ویسے تو اس بار کا رمضان اور عید بھی عجب گزرے۔ ایک طرف پرانے پاکستان کے آئین کی جنگ تھی اور دوسری جانب ’حقیقی آزادی کا جہاد‘۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ گذشتہ 20،30 سالوں میں ایسی کشمکش والی عید یا ایسا ہنگامہ خیز ماہِ رمضان گزرا ہو۔
دفتر ہو یا بازار، کاروبار ہو یا روزگار، رشتہ داروں کی محفل ہو یا یاروں کی بیٹھک یا چاہے کسی انجان سے انجانے میں ہی گپ شپ، ہر جگہ ہر ماحول کا ایک ہی موضوع اور یکساں پیرایہ گفتگو سیاست، ملک کے مستقبل، مخلوط حکومت کے جواز اور عمران خان کی سیاسی بقا پر کچھ گرما گرمی کچھ تلخی پر مشتمل تبادلہ خیال سے ہی عبارت رہا۔
اور اب بہرحال جب کہ کپتان نے (بقول ان کے) ’حقیقی آزادی‘ کے ’جہاد‘ کا میانوالی سے آغاز کر ہی دیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا اس بار کا یہ لانگ مارچ کامیاب ہو گا اور اس بار کی ’آزادی‘ کی کامیابی کے محرکات وضامن کون ہیں؟
پہلی بات تو یہ کہ آپ چاہے عمران خان سے اتفاق رکھتے ہوں یا اختلاف، یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس وقت ان کا سیاسی بیانیہ اپنے اثرات کے حساب سے جاندار جا رہا ہے۔
عمران کا بیانیہ درست ہے یا غلط، یہ ایک اور بحث ہے جو فی الحال ان سطور میں موضوعِ بحث نہیں ہے اور اس پر بہت گفتگو پہلے بھی ہو چکی، اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی بلاتعطل جاری رہنے کے امکانات ہیں۔ مگر جہاں تک ’عمرانی بیانیے‘ کے عوام تک ’رسائی اور گہرائی‘ کا تعلق ہے تو کامیابی تو بہرحال نظر آتی ہے۔
لیکن اس کامیابی میں قافلہ عمرانی کی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ بہت بڑا کردار (سابقہ اپوزیشن اور موجودہ) مخلوط حکومت کے بیانیے کی نااہلی اور عدم موجودگی کا بھی ہے۔
عمران خان مہارت کے ساتھ حکومت کو اپنی پِچ پر اپنی شرائط کے مطابق کھیلنے پر مجبور کرنے پر اس وقت تک تو کامیاب نظر آ رہے ہیں اور مسلسل جارحانہ بولنگ سے فریقِ مخالف کو چھکے چوکے تو ایک طرف رہے، سنگل اور ڈبل رنز بھی نہیں بنانے دے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں تک تو عمرانی سیاست موثر انداز اختیار کرتی نظر آ رہی ہے لیکن اس بیانیے کا اصل امتحان تو اعلان کردہ لانگ مارچ کے انعقاد پر ہے۔ فی الحال تو کپتان پنجاب میں چند اور زیادہ تر خیبرپختونخوا میں جلسوں کے ذریعے عوام کو اپنے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے جوش دِلا رہے ہیں، لیکن 2014 کے حوالے کو مدِنظر رکھا جائے تو جلسوں اور لانگ مارچ یا دھرنے میں شامل کارکنان کی تعداد میں بہت فرق ہوتا ہے۔
2014 سے قبل تحریکِ انصاف نے ملک بھر میں بڑے بھرپور جلسے کیے جن میں واقعتاً لاکھوں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ کپتان ابھی وزیراعظم بھی نہ بنے تھے جس کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے مسیحائی کا بُت بھی ابھی پاش پاش نہ ہوا تھا۔ ’خاص لوگوں‘ کے لیے بھی خان آخری امید کے طور پر برقرار تھے اور ’خاص‘ سپورٹ بھی مکمل اور غیرمشروط حاصل تھی۔
مگر اس سب کے باوجود 2014 دھرنے کا جو احوال اور حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنوں سے نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں، نہ ہی بنائی، اور نہ ہی اِن کے ذریعے الیکشن کروائے جا سکتے ہیں۔ تو ’حقیقی آزادی‘ کی الیکشن کروانے کی بظاہر منزل تو ابھی سے ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
دوم، لانگ مارچ میں عمران خان کے ساتھ کتنے لوگ اسلام آباد پہنچیں گے اور کتنے دھرنا دے کر کتنے عرصے کے لیے بیٹھ پائیں گے، اس کا حتمی یقین خود جماعت کے اندر بھی موجود نہیں۔
کیا عمران خان خود بھی دن رات دھرنے کے اندر ہی موجود رہیں گے اور اپنا اوڑھنا بچھونا سونا کھانا پینا سب دھرنے کے مقام پر ہی محدود رکھیں گے؟ اس کا جواب بھی 2014 کے دھرنے سے بخوبی حاصل کیا جا سکتا ہے جہاں صرف رات کے اوقات میں تقاریر کی حد تک ہی ڈی چوک کو رونق ملتی رہی اور دن کے اُجالے میں پی ٹی آئی کیمپس ویران اُجاڑ پڑے نظر آتے تھے۔
لانگ مارچ اوردھرنے کے ذریعے اگر الیکشن کروائے جا سکتے تو ماضیِ قریب میں مولانا فضل الرحمٰن بھاری بھرکم ہجوم کے ساتھ اسلام آباد وارد ہوئے تھے جن کے سخت جان کارکنان بھی اگر چند روز سے زائد دھرنے کے قیام کے متحمل نہ ہو سکے تھے تو عمران خان کے نوزائیدہ جنونی عاشق کب تلک شدید گرمی کے تھپیڑے، سیاسی محاذ آرائی کی تلخی اور ’ماضیِ قریب کے حلیفِ دلبرداشتہ‘ کی بےرخی سہہ پائیں گے۔
عمران خان کا خیال ہے کہ وہ 20 لاکھ یا اس کے قریب قریب لوگ اسلام آباد لے آئیں تو شہرِ اقتدار اور حکومت کو مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ پنڈی کو بھی کوئی فیصلہ لینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ لیکن 20 لاکھ لوگ لانگ مارچ کے لیے اکٹھے کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ دھرنے کے لیے 50 ہزار لوگ بھی اکٹھے کرنا محال ہو سکتا ہے۔
مسئلہ اب یہ ہے کہ کپتان اپنا آخری پتہ لانگ مارچ کی صورت اعلان کر کے پھینک چکے ہیں۔ اب یا تو اس پتے کو کھیلنا ہو گا یا گیم سے باہر ہونا ہو گا۔
اگر کسی بھی صورتِ حال کے بہانے لانگ مارچ، دھرنے کو اعلان کردہ وقت سے آگے بڑھانے کا سوچا جاتا ہے تو یہ بھی گیم سے باہر ہونے کے مترادف ہو گا۔ لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان اب عمران خان کے لیے سیاسی آر یا پار کی صورت ہے جس کی کامیابی کے امکانات صفر کے قریب ترین ہیں۔
تحریکِ انصاف حکومت کو اصل ٹف ٹائم پارلیمان کے اندر ہی دے سکتی ہے کیونکہ بجٹ کی آمد آمد ہے، ایوانِ بالا میں پی ٹی آئی مَنی بِل کے حوالے سے حکومت کے دانت کھٹے کر سکتی ہے اور پھر ایوانِ صدر بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی کے لیے سیاسی اعتبار سے حکومت کو مفلوج کیے رہنا پارلیمان کے اندر سے ہی ممکن ہے۔
اگر تحریکِ انصاف مئی کے اواخر میں لانگ مارچ یا دھرنے کا آغاز کرتی ہے تو ہر صورت اسے ایک ماہ کے اندر اندر ہی مکمل کرنا ہو گا اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہو گا کیونکہ لانگ مارچ، دھرنے کے امکانات میں بڑی رکاوٹ جولائی کے وسط میں آنے والی عید الاضحٰی اور پھر محرم الحرام اور اس کے بعد نومبر کے لیے تیاریاں گویا ایک اور ’سردیوں کی آمد۔‘
اس حساب سے ’حقیقی آزادی‘ کے لیے ’حقیقی وقت‘ انتہائی کم ہے۔ فی الحال تو تمام حقائق کا بےرحمانہ تجزیہ کیا جائے تو حالات عمران خان کی سڑکوں کی حکمت عملی کے موافق نظر نہیں آتے نہ ہی الیکشن عمران خان کی منشا کے مطابق وقت پر ہوتے نظر آتے ہیں۔
تاریخی اور عالمی حوالوں سے سیاسی تحریکوں کی کامیابی کا ایک پینترا پُرتشدد یا خونی بھی ہو سکتا ہے مگر ملک کے موجودہ حالات میں اس کے استعمال سے تحریکِ انصاف کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچنے کا احتمال زیادہ ہے۔
سو فی الحال عمران خان کے لیے اس سے بہتر آپشن اور کوئی موجود نہیں کہ وہ گذشتہ ساڑھے تین سال کی غلطیوں کا اِزالہ کریں، ’معاملات‘ کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں اور اگر واقعی مستقبل قریب میں اپنا وزارتِ عظمیٰ کا کَم بیک چاہتے ہیں تو جارحیت کو بریک لگائیں اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اعتماد سازی کے اقدامات پر اولین اور مکمل توجہ دیں اور آخرِ کار آئندہ کئی سردیوں تک بلا خوف و خطر وزیراعظم ہاؤس کی دبیز چاردیواری کی ٹھنڈک میں گزربسر ممکن ہو سکتا ہے ورنہ کئی موسم لو کے تھپیڑوں کی زد میں گزارنا پڑیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔