کہتے ہیں کہ سیاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس پر تمام دنیا کا اتفاق ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ مذہب کی کوئی سیاست نہیں ہوتی، اس پر دنیا کا کوئی فرد بھی اتفاق نہیں رکھے گا۔
’مذہب کا لبادہ اقتدار کی ہوس کا بہترین بھیس ہے۔‘
مشہور برطانوی مصنف ولیم ہیزلٹ کا یہ قول پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر سو فیصد صادق آتا ہے۔
سیاست کا اقتدار ہو یا اقتدار کی سیاست، پاکستان میں مذہب کارڈ کا استعمال کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں۔
لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مذہب کارڈ کا سیاست میں استعمال جب ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی اور ہردلعزیز لیڈر اور جنرل ضیا جیسے سخت گیر آمر تک کو بچا نہ سکا تو آج اس کچے دھاگے سے امیدیں جوڑ کر کیا کامیابی حاصل کر لی جائے گی؟
عدم اعتماد کی سیاسی تحریک کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے دینی اور وطن پرستی کے جذبے کا تڑکا لگانے کا مشورہ جس کسی نےبھی خان صاحب کو دیا ہے، اس نے بڑی بددیانتی کی ہے اور وزیراعظم کے ساتھ مخلصی نہیں کی۔
عالمی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ایسی جماعتیں اور لیڈر جن کی سیاسی جدوجہد کی بنیاد مذہب نہ ہو بلکہ سماجی انقلاب کے فلسفے پر مبنی کاوش ہو، اگر وہ اپنے راستےسے ہٹ جائیں اور کسی بھی دباؤ کے نتیجے میں اپنے بنیادی ڈھانچے سے الگ نعرے کو نصب العین بنا لیں تو پھر انجام خوش آئند نہیں ٹھہرتا۔
ہمارے ہاں اس بابت بڑی مثال خود ذوالفقار علی بھٹو کی لی جا سکتی ہے جن کی بہت تعریف آج کل خود وزیراعظم عمران خان کی زبانی سننے کو ملتی رہتی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے بنیادی سماجی مطالبے سے ’اسلامی سوشلزم‘ کی ڈھال تک، 73 کے آئین کو گزشتہ دونوں آئین کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ حد تک مذہبی سانچے میں سمو کر، جمعے کے روز کی چُھٹی اور مذہبی طبقات کے دباؤ میں ایسی ہی کئی دیگر اقدامات کے باوجود آخر بھٹو حکومت کے خاتمے کے لیے ’نظامِ مصطفی‘ کا ہی سہارا لیا گیا۔
آج اپوزیشن کو کم از کم اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کو مذہبی لبادے میں چھپانے کے بجائے علی الاعلان عوامی مسائل، گورننس اور حکومتی ناکامیوں پر بیانیے کو تشکیل دیا گیا ہے۔ جواباً حکومت کی جانب سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن کی طرف سے کارکردگی چارج شیٹ کے مقابلے میں پرفارمنس کارڈ دکھا کر ہر قسم کی مخالف تحریک کا قلع قمع کیا جاتا لیکن جب اصلی کارڈ پر ہر طرف صفر بٹا صفر ہی دیا گیا ہو تو پھر جعلی کارڈز کا استعمال ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔
2011کے بعد سےتحریکِ انصاف کو جو عروج حاصل ہوا اور اس کے نتیجے میں جو طبقہ خان صاحب کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں بطور ووٹر، سپورٹر یاالیکٹیبل کے شامل ہوا، اس کا واحد مقصد ملک میں ایک سماجی تبدیلی لانا تھا۔
اس طبقے کے سامنے معاشرتی انصاف اور خوشحال پاکستان کا ایک سرسبز خواب رکھا گیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جب اقتدار موصول ہوا تو معاشرتی تبدیلی کا انقلاب یک بیک مذہبی رنگ اختیار کرتا ہوا ’ریاستِ مدینہ‘ کے سیاسی نعرے میں ڈھل گیا۔
نہ جانے کس نے اور کس طرح وزیراعظم خان صاحب کےذہن میں یہ مذہبی سیاسی اختراع پیوست کر دی جس کا کانسیپٹ اور آئیڈیا خود وزیراعظم کی کابینہ اور پارٹی کی اکثریت حتی کہ خان کے ووٹرز، سپورٹرزتک کے لیے واضح نہیں تھا۔
نتیجہ یہی نکلا کہ ساڑھے تین سال تک اس آئیڈیا کے اردگرد ٹامک ٹوئیاں ماری جاتی رہیں حتی کہ نوبت یہاں تک آ گئی کہ اپنے بھی کہہ اٹھے کہ یہ وہ تعبیر تو نہیں جس کا خواب دیکھا تھا۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
ایک آدھ سوچے کانسیپٹ کے ساتھ ناکام حکومتی تجربہ کرنے کے بعد اب ’حکومت بچاؤ مہم‘ کے لیے ایک اور ادھ سوچے آئیڈیے کا سہارا لیا گیا ہےاور تواتر کے ساتھ ایک سیدھے سادے سیاسی معاملےکو معرکۂ حق و باطل کے رنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان پہلے ہی ماضی میں سیاست اور اقتدار کے لیے مذہب کے استعمال کے انتہائی خطرناک نتائج بُھگت چکا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان رُجحانات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی ہوناچاہیے۔ اگر وزیراعظم خان آج اپنی سیاست کے لیے مذہب کارڈ کا استعمال کر رہے ہیں تو حالیہ ماضی کے تحریکِ لبیک یا دیگرمذہبی سیاسی جماعتوں کے احتجاج کو اخلاقی اور قانونی اعتبار سے آئندہ کس طور غلط اور بےجا قرار دے سکیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اپوزیشن جماعتوں کے جلوس اسلام آباد کی طرف بڑھ چکے ہوں گے۔ ساتھ ہی حکومت کے جلسےکے قافلے بھی اپنی منزل اور اپنے ہی شہرِ اقتدار کے لیے روانہ ہو رہے ہوں گے۔ حکومتی سیاسی جلسے کے مذہبی تڑکے کے ساتھ اس وقت جس قسم کا ماحول تشکیل پا چکا ہے، اس بات کا بھرپور خدشہ موجود ہے کہ راستے میں یا اسلام آباد کے نزدیک (یا پھر شہرمیں ہی) حکومت اور اپوزیشن کے کارکنان کے درمیان دنگا فساد کا آغاز ہو جائے۔
اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو زیادہ ذمہ داری حکومتی اطراف کو سہنی پڑے گی۔ ایسی صورت میں عارضی نقصان کا احتمال تو موجود رہتا ہی ہے مگر اس کے دیرپا منفی اثرات معاشرتی ڈھانچے پر بھی لاگو ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مذہب کارڈ کے استعمال کے ساتھ اگر خدانخواستہ ہنگامہ خیزی، مارکٹائی،املاک کے نقصان کاالزام بھی حکومتی سیاسی جماعت پر چسپاں ہو گیا تو سوالات اٹھنے لگیں گے کہ پھر تحریکِ لبیک جیسی جماعت اور تحریکِ انصاف میں فرق کہاں ہے؟
ایسی نازک صورتحال میں نہ صرف امن و امان کا خطرہ درپیش ہے بلکہ بطورسیاسی جماعت تحریکِ انصاف کی ساکھ بھی اپنے سربراہ پر منحصر ہے اور اسی مطابقت سے مثبت امید رکھی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم خان ’امرِ بالمعروف‘ کے عنوان سے منعقدہ پارٹی جلسے میں مذہب کو سیاسی جنگ کا مزید ایندھن بنائے جانے کی حوصلہ شکنی کریں گے اور حالات کو خطرناک نہج کی طرف جانے سے محفوظ رکھیں گے۔