کتابوں سے بھرے دفتر میں بیٹھے بھارتی شہر ممبئی کی ایک مسجد کے بڑے امام محمد اشفاق قاضی نے اذان دینے سے پہلے لاؤڈ سپیکر کے ساتھ لگے آواز کی شدت کو ناپنے والے آلے کی جانچ کی۔ ان کے دفتر سے نماز کے لیے بنایا گیا ہال دکھائی دیتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت کے مغربی ساحل پر واقع وسیع و عریض شہر ممبئی کے سب سے زیادہ بااثر عالم دین قاضی کہتے ہیں کہ ’ہماری اذان کی آواز کی بلندی ایک سیاسی مسئلہ بن چکی ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ معاملہ دو برادریوں کے درمیان تنازعے کی شکل اختیار کرے۔‘
جب انہوں نے یہ بات کی تو انہوں نے ممبئی کے قدیم تجارتی حصے میں واقع خوبصورت اور ریت کے رنگ والی جامع مسجد کے میناروں پر لگے لاؤڈ سپیکرز کی جانب اشارہ کیا۔
قاضی اور ریاست مہاراشٹر جہاں ممبئی واقع ہے سے تعلق رکھنے والے تین دوسرے بڑے علما نے بتایا کہ ریاست کے مغرب میں 900 مساجد نے مقامی ہندو سیاست دان کی شکایت کے بعد لاؤڈ سپیکر پر اذان کی آواز کم رکھنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
علاقائی ہندو جماعت کے رہنما راج ٹھاکرے نے اپریل میں مطالبہ کیا تھا کہ مساجد اور عبادت کے دوسرے مقامات پر لاؤڈ سپیکرز کی آواز اتنی اونچی رکھی جائے جس کی اجازت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری صورت میں ان کے پیروکار احتجاج کے طور پر مساجد کے باہر بھجن گائیں گے۔
ٹھاکرے جن کی جماعت کی 288 ارکان پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہے، نے کہا ہے کہ وہ محض اصرار کر رہے تھے کہ شور کی سطح سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے۔
مہاراشٹر کے دارالحکومت اور مالیاتی مرکز ممبئی میں ٹھاکرے نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’اگر مذہب ذاتی معاملہ ہے تو پھر مسلمانوں کو (سال کے) کے 365 دن لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کی اجازت کیوں ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پیارے ہندو بھائیو، بہنو اور ماؤں اکٹھے ہو جاؤ۔ ان لاؤڈ سپیکرز کو اتارنے کے لیے ایک ہو جاؤ۔‘
بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے رہنما اس اقدام کو جو عید الفطر کے موقع پر کیا گیا، سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے عبادت اور اظہار رائے کی آزادی کے حق کو نقصان پہنچانے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں جسے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی آشیرباد حاصل ہے۔
حالیہ ہفتوں میں بی جے پی کے ایک سرکردہ رہنما نے وٹے سٹے کی شادی اور مذہب کی بنیاد پر قوانین وراثت کو یکساں ضابطہ دیوانی کے تحت لانے پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ان کا مقصد ان قواعد پر اثرانداز ہونا تھا جن کے تحت مثال کے طور پر مسلمان مرد چار بیویاں رکھ سکتے ہیں۔
بی جے پی نے ٹھاکرے کے عمل پر تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بی جے پی اقلیتوں کو ہدف بنانے کی تردید کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ترقی پر مبنی تبدیلی چاہتی ہے جس کا تمام بھارتی شہریوں کو فائدہ پہنچے۔
پولیس کی مداخلت
قاضی کا کہنا تھا کہ انہوں نے جامع مسجد میں ٹھاکرے کا مطالبہ پورا کیا تا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کا خطرہ کم کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ آزادی کے بعد سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بھارت بھر میں وقفے وقفے سے خونریز جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
2020 میں دہلی میں شہریت کے قانون کے خلاف مظاہروں کے بعد درجنوں افراد کو قتل کر دیا گیا جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ مسلمانوں نے شہریت کا یہ قانون اپنے خلاف امتیازی قرار دیا۔ جب سخت گیر ہندو رہنما اسلام کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے تو قاضی کے بقول:’ہم مسلمانوں کو امن و امان برقرار رکھنا پڑا۔‘
ریاست نے ٹھاکرے کے عمل کو سنجیدگی سے لیا۔ پولیس کے اعلیٰ حکام نے مذہبی رہنماؤں جن میں قاضی بھی شامل ہیں، سے ملاقاتیں کیں تا کہ یقینی بنایا جا سکے کہ مائیکرو فونز بند رہیں کیوں کہ انہیں مہاراشٹر میں ہندو مسلم جھڑپوں کا ڈر تھا۔ ریاست میں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان اور سات کروڑ ہندو آباد ہیں۔
اتوار کو پولیس نے ممبئی میں دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا کیوں کہ انہوں نے فجر کی نماز کی اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال کیا۔
پولیس نے ٹھاکرے کی جماعت کے کارکنوں کو خبردار کیا کہ وہ مسجد کے اردگرد جمع ہونے سے گریز کریں۔
ممبئی کے سینیئر پولیس افسر وی این پٹیل کے مطابق: ’ہم کسی صورت میں ریاست میں دو برادریوں میں کشیدگی پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور عدالتی حکم کا لازمی طور پر احترام کیا جانا چاہیے۔‘
ٹھاکرے کی جماعت کے سرکرہ رہنما نے کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنا نہیں بلکہ ’شور کی آلودگی‘ کم کرنا ہے جو عبادت کے مقامات پیدا کرتے ہیں۔
کرتک کمارشندے کا کہنا تھا کہ ’ہماری جماعت اقلیتی برادری کو مطمئن نہیں کرتی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس ماہ پارٹی کے 20 ہزار کارکنان کو وارننگ جاری کر چکی ہے۔
اذان کا مسئلہ مہاراشٹر سے باہر نکل کر دوسری ریاستوں تک پہنچ چکا ہے۔ تین ریاستوں میں بی جے پی کے سیاست دانوں نے مقامی پولیس سے کہا ہے کہ وہ عبادت کے مقامات میں لگے لاؤسپیکرز اتار دے یا ان کا استعمال محدود کروائے۔
بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کے حکم پر مساجد اور مندروں میں لگے وہ 60 ہزار سے زیادہ لاؤڈ سپیکرز اتار دیے گئے جنہیں لگانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔