یہ 18ویں صدی کی کہانی ہے۔ سکاٹ لینڈ کے مرکزی شہر ایڈنبرا میں جان گرے نامی ایک پولیس اہلکار کتے پالنے کے شوقین تھے۔
جان گرے نے سکائی ٹیرئیر نسل کا ایک کتا پالا۔ چھ ماہ کا تک اس کا کسی نے کوئی نام نہیں رکھا تھا۔ جان نے چھ ماہ بعد اس کا نام ’بوبی‘ رکھ دیا۔
جان اس وقت ایک کیٹل مارکیٹ میں بطور سیکورٹی گارڈ تعینات تھے اور بوبی بھی ان کے ہمراہ ان کے ساتھ ہی ڈیوٹی کرتا تھا تاکہ کسی بھی چور کو جانوروں کے پاس آنے نہ دیا جائے۔
مرنے کے بعد جس قبرستان میں جان گرے کو دفنایا گیا وہاں کتوں کا داخلہ ممنوع تھا اور اس قبرستان کا نام کیرک یارڈ تھا۔ بوبی روز اسی قبرستان جاتا تھا اور اپنے مالک کی قبر پر بیٹھ جاتا۔ قبرستان کا رکھوالا اسے قبرستان سے باہر نکال دیتا تھا۔
یہ ایک معمول بن گیا۔ بوبی قبرستان آتا اور رکھوالا اسے نکال باہر کرتا۔ ایک دن سخت سردی تھی اور موسم خشک تھا۔ بوبی باہر کھلے میدان میں مالک کے قبر پر بیٹھا تھا کہ چوکیدار نے اسے دیکھ لیا۔
چوکیدار جس کا نام جیمز تھا، اس نے کتے پر ترس کھایا اور کچھ خوراک بھی دے دی۔ تب سے بوبی کے لیے قبرستان دوسرا گھر بن گیا اور چوکیدار اور کتے کے مابین یہ لڑائی تقریبا چودہ سالوں تک جاری رہی۔
بوبی اور عدالتی کیس
اس زمانے میں سکاٹ لینڈ میں کتے پالنے کے لیے ایک لائسنس دیا جاتا تھا جس اس کی فیس تقریباً 12 شلنگ تھی۔
گرمیوں کے دوران سکاٹ لیںڈ میں کتوں پر ایک وبائی مرض آتا اور وہ لوگوں کو کاٹنا شروع کر دیتے تھے اس لیے ایسے کتے جن کا کوئی لائسنس نہیں ہوتا تھا، ان کو ماردیا جاتا۔
بوبی بھی بغیر لائسنس کے تھا کیونکہ اس کا اصلی مالک مرگیا تھا اور کسی دوسرے نے اس کتے کو نہیں پالا تھا۔ اسی کتے کے اوپر عدالت میں کتے کے مالک جان گرے کے دوست جان ٹریل کو بلایا گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ نے بغیر لائسنس کے کتا کیوں رکھا ہے۔
عدالتی کارروائی کے بعد عدالت اس فیصلے پر پہنچی کہ بوبی کو مار دیا جائے۔ تب ایک مخیر شہری کی جانب سے فیس ادا کرنے پر بوبی کی جان بچ گئی۔ مرنے کے بعد بوبی کو اسی قبرستان میں دفنایا گیا اور قبرستان کے ساتھ والی سڑک پر اس کا ایک یادگاری مجسمہ بنایا گیا۔
ایڈنبرا کے رہائشیوں کے مطابق اس مجسمے کے بارے میں اب یہ کہانی مشہور ہے کہ ’جو اسے چھو لے اس کی قسمت بدل جاتی ہے۔‘