ہمارے معصوم انقلاب پسندوں کو کچھ وعدے بہت رومانوی لگتے ہیں۔ جو بھی ان سے ان کے نظریات سے قریب تر وعدہ کر لے یہ سب یقین کی ڈور میں بندھے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔عموماً یہ وعدے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو از سر نو ترتیب دینے کے خواب سے جڑے ہوتے ہیں کہ کیسے اپنی سوچ اور کلچر بدل کر ہم پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنا سکتے ہیں۔
اس عنوان کے تحت سب سے مشہور اور پرانا وعدہ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار لوگ اس تصور پر ہی جھوم جاتے ہیں۔ ان کے دل پر یہ خیال ٹھنڈی پھوار کی طرح گرنے لگتا ہے کہ پاکستان کو خود انحصاری کی جانب گامزن دیکھ کر دشمنوں کو اور شریکوں کو کیسے آگ لگے گی۔ اسی طرح کے متعدد وعدے کئی دہائیوں سے پاکستان سے محبت کرنے والوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔
موجودہ حکمران جماعت جب حزب اختلاف میں تھی تو انہوں نے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا اور وہ سب معصوم انقلاب پسند پھر وجد میں آ گئے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ اب وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے پروٹوکول اور سیکیورٹی کاروانوں کے راستے روکنے شروع کر دیے۔ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے کیونکہ وقت کا سب سے اہم لیڈر کہہ رہا تھا کہ ہم وی آئی پی پروٹوکول کو نہیں مانتے۔ میرٹ کا پہاڑہ اونچی سروں میں اتنی بار دہرایا گیا کہ ہر خاص و عام کو سہانے خواب دکھائی دینے لگے۔ لوگ اپنا حق لینے کے لیے کھڑے ہونے لگے۔انہیں یقین ہو چلا کہ کوئی ان کا حق نہیں چھین سکتا۔ اقربا پروری اور سفارش کے کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ایسے مضبوط لہجے میں ہر روز کیا جاتا تھا کہ سب مخلصانِ وطن کو اصلاحات کی شروعات بہت قریب دکھائی دینے لگی۔
موسمیات کی وزیر زرتاج گل وزیر کی بہن کو ایک تدریسی ادارے سے ڈیپیوٹیشن پر انسداد دہشت گردی کے ادارے میں ڈائریکٹر لگانے کا نوٹیفیکیشن پاکستان تحریک انصاف کے میرٹ پر عمل کرنے اور اقربا پروری نہ کرنے کے بلند و بانگ نعروں پر عوام کا اعتماد متزلزل کرنے لگا۔ جب یہ معاملہ میں نے سوشل میڈیا پر اٹھایا تو سابق وفاقی وزیر نے دفاع میں آکر کہا کہ نیکٹا میں ڈائریکٹر کوئی اہم عہدہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ سیاستدانوں کے خلاف ایسے پروپیگنڈہ کرنا فیشن ہے۔ اگلے ایک دن میں اس خبر سے جڑی کئی کہانیاں منظر عام پر آ گئیں جس میں زرتاج گل وزیر صاحبہ کا اپنی بہن شبنم گل کو نیکٹا میں لگانے کا فرمائشی مراسلہ بھی شامل تھا۔ صرف اس واقعے میں ہی نہیں دیگر واقعات کو بھی دیکھیں تو اقربا پروری کے خاتمے کے وعدے پر پاکستان تحریک انصاف کوئی زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
بدقسمتی سے اقتدار تک آنے والے سب لوگ یہ وعدے اقتدار کے دروازے پر اتار کر نیا چولا پہن لیتے ہیں۔ ’نئے پاکستان‘ میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والوں نے بھی یہی کیا۔ مشہور اور مفید قول ہے ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے‘ مگر موجودہ حکمران جماعت کا یہ سفر اقتدار سے ذرا پہلے ہی شروع ہو گیا۔ انتخابات سے قبل ہی پی ٹی آئی اس قول کی تصویر بن گئی کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔
اصولوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے روایتی طور پر انتخابات جیتنے والے تگڑے امیدواروں کو لیفٹ رائٹ سے ہانک کر ٹکٹ دے دیے اور اس کے دفاع میں جواب آیا کہ اقتدار تک آئے بغیر اس ملک میں آپ کچھ بدل نہیں سکتے۔ یہ وضاحتی پرچہ دیکھ کر بہت سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش ہوگئے اور کئی دل سے مان گئے کہ ہم ان روایتی سیاستدانوں کا ساتھ صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے لے رہے ہیں، جیسے ہی کپتان کی حکومت بنے گی سب سیٹ ہو جائے گا۔ مگر شو مئی قسمت کہ کابینہ کی تشکیل میں زیادہ تر پرانے روایتی چہروں کو دیکھ کر پی ٹی آئی والے پھر اَپ سیٹ سے نظر آئے مگر پارٹی سے امید ابھی بھی باقی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر آیا رومانوی وعدوں کا مرحلہ اور سب سے پہلا ’لٹمس ٹیسٹ‘ بنا وی آئی پی پروٹوکول کا معاملہ۔ اس معاملے کی توجیہات پر پی ٹی آئی کے ترجمان ایسے ایسے سیاسی لطیفے بیان کرتے نظر آئے کہ لوگ خود ہی تنگ آکر چپ ہو گئے۔ کپتان سے لے کر کپتان کے بارہویں کھلاڑی بزدار تک سب ہی وی آئی پی پروٹوکول میں پھلنے پھولنے لگے۔ اس کے بعد آیا مشیر نہ رکھنے کا معاملہ، مگر حکومت میں آئے بغیر کیسے معلوم ہو سکتا تھا کہ مشیر کتنے اہم ہیں؟ خان صاحب کو اپنے اندازے غلط ہونے کا ادراک ہو چکا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ زیادہ تر مشیر انہوں نے اپنے ذاتی دوست اور وفادار چنے۔ تھا تو یہ روایتی فارمولا مگر چونکہ کپتان کا فیصلہ تھا اس لیے ناقدین کو تند و تیز حملوں سے خاموش کرا دیا گیا۔
ٹیم کا اعلان ہونے کے بعد مشکل ترین مرحلہ معاشی انقلاب کا وعدہ وفا کرنے کا تھا۔ مگر ہماری بری قسمت کہ وہ وعدہ پورا تو خیر کیا ہوتا، اس بیماری کے علاج کا طریقہ مزید تکلیف میں ڈھونڈنے کا اعلان ہوا اور یکے بعد دیگرے مہنگائی کے وار ہونے لگے۔ اس سارے قصے میں ایک چیز جس نے ترقی کی وہ ڈالر کا ریٹ تھا۔ معاشیات اور کشکول پیچیدہ موضوع ہے اس پر دو جملوں میں بات کرنا مشکل ہے مگر کپتان کے ہاں جب یہ طے پایا کہ کچھ سخت فیصلے کرنے ہوں گے تو سب اس کا دفاع کرنے لگے۔ ان فیصلوں کے بعد کا منظر سب کو ہی دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ دیکھیے ان سخت فیصلوں کے اُس پار ہمارے سنہرے دور کا آغاز ہے کہ نہیں!
کرپشن کے خاتمے کا وعدہ محدود ہو کر مخصوص دائرے میں چکر کاٹنے لگا۔ ملک میں ہر سطح پر ہونے والی اخلاقی کرپشن کے خاتمے کے لیے جو لوگ پُر امید تھے وہ پھر مایوس ہونے لگے۔ انہیں رشوت کے کلچر کے خاتمے کی جو امید تھی وہ ذرا معدوم ہونے لگی ہے۔
خان صاحب کی طرف سے کیے گئے اقربا پروری سے نجات اور میرٹ کے اطلاق سے لے کر پولیس اصلاحات اور پولیس میں سیاسی مداخلت کے خاتمے جیسے وعدے ابھی ختم نہیں ہوئے کیونکہ ابھی نئے پاکستان کے پاس اقتدار کے تین سال باقی ہیں۔ وہ سب دیوانے جن کو نئے پاکستان میں سماجی انصاف اور مساوات کا بول بالا دکھائی دے رہا تھا وہ اب بھی پُر امید ہیں کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدے وفا ہوں گے۔ وہ ابھی بھی بضد ہیں کہ نیا پاکستان کپتان ہی بنائے گا۔
میرے نزدیک صرف یہ بات وضاحت طلب ہے کہ کیا پرانے پاکستان کو مکمل تباہ کرکے نیا پاکستان بنے گا یا اسی ڈھانچے میں مرمت کی جائے گی؟ اگر ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو کپتان کے ساتھ جڑی امیدیں ابھی بھی مجھے جان دار نظر آتی ہیں۔ معاشی اصلاحات کا سفر تو ابھی طویل نظر آتا ہے مگر وہ وعدے جو خان صاحب نے معاشرتی اصلاحات کے لیے کیے تھے، ان کو پورا کرنے کی طرف انہیں توجہ دینی چاہیے اور کم از اس تبدیلی کا آغاز انہیں اپنی جماعت کے مرکزی رہنماؤں کے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرکے کرنا ہوگا۔