پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ نے ’دہشت گردی کے خاتمے‘ کے لیے قومی انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسسمنٹ سینٹر (نفٹیک) کے نام سے ایک ادارے کے قیام کی منظوری دی ہے جو وزیر داخلہ محسن نقوی کے مطابق متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد قائم کیا جا رہا ہے۔
نفٹیک نامی یہ ادارہ پہلے سے موجود قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے زیر انتظام کام کرے گا اور اس کی منظوری سات اپریل کو وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت نیکٹا بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں دی گئی تھی۔
وزیر داخلہ نے سات اپریل کو نفٹیک کے قیام پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ادارہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد قائم کیا گیا ہے اور اسے صوبائی سطح پر بھی قائم کیا جائے گا۔‘
انہوں نے نفٹیک کے قیام کو ’نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے‘ کی طرف بڑھنے کو قرار دیا ہے۔
نفٹیک کے قیام کی منظوری ایسے وقت میں دی گئی ہے جب ملک میں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سے قبل ملک میں بڑھتی عسکریت پسندی کے پیش نظر 2009 میں نیکٹا کا قیام عمل میں آیا تھا جبکہ 2016 میں نیکٹا کے ماتحت جوانٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کی گئی تھی جس کا کام ملک کی مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان رابطہ اور تعاون کو بہتر بنانا تھا۔
جے آئی ڈی کا قیام سال 2014 سے 2018 تک کے لیے بنائی گئی نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی کے تحت کیا گیا تھا۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا گذشتہ تقریباً نو سال میں جوانٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جے آئی ڈی) جسے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے بنایا گیا تھا، وہ کردار نہیں ادا کر سکی جو نفٹیک بنانے کی ضرورت پڑی؟
کیا نفٹیک کو بنانے کی بجائے جے آئی ڈی کو فعال کرنا بہتر عمل نہیں تھا؟ اور اگر اب نفٹیک کا قیام ہو گیا ہے تو یہ پہلے بنائے گئے اداروں بشمول جے آئی ڈی سے مختلف کیسے ہوگا؟
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کے لیے نیکٹا سے منسلک رہنے والے افسران سے بات کی ہے۔
نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی سمجھتے ہیں کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک نئے ادارے کے قیام کے بجائے اس سے پہلے بنائے گئے اداروں کو فعال کرنا بہتر ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا کہ ’نفٹیک کام کرے اور یہ نیکٹا کے اختتام کی شروعات نہ ہو۔ یہ کام نیکٹا کے مینڈیٹ میں شامل ہے جس کے لیے جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائیریکٹوریٹ بنی تھی۔ اس کے بعد نیشنل ان ٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی (این آئی سی سی) بنی جو اب فعال نہیں۔ اگر نفٹیک کا حال بھی یہی ہونا ہے تو جے آئی ڈی کو فعال بنانا چاہیے تھا۔‘
سابق سربراہ نیکٹا کا کہنا ہے کہ ’انٹیلی جنس ادارے جن کی تعداد تقریباً 33 ہے، ایک چھت کے نیچے بیٹھیں گے اور صرف انفارمیشن ہی شیئر نہیں کریں گے بلکہ اس کی تصدیق بھی کریں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پہلے سے بنا ادارہ جس نے کام نہیں کیا، کو چھوڑ کر ایک نیا ادارہ بنا لیا جائے۔ یہ playing to the galleries لگ رہا ہے۔‘
احسان غنی کے مطابق ’نفٹیک کے قیام سے قبل اس پر باقاعدہ ہوم ورک ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا، اس پر سنجیدگی تک نظر نہیں آ رہی۔‘
دوسری جانب نیکٹا میں ہی ایک اعلیٰ عہدے پر رہنے والے سابق افسر کا کہنا ہے کہ نفٹیک کا قیام درست سمت کی جانب قدم ہے لیکن انہوں نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’اس کا مستقبل گذشتہ اداروں جیسا نہ ہو‘۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’نفٹیک ایک بہت پرانا تصور تھا لیکن کئی سالوں سے اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ اب جب اس پر عملدرآمد ہو گیا ہے تو یہاں ملک بھر کے ڈیٹا بیس ایک ہی جگہ شیئر کیے جائیں گے۔
’یہ بہت ضروری ہے کہ انٹیلی جنس کو قابل عمل بنانے کے لیے تمام ایجنسیاں ایک ہی جگہ ڈیٹا کو شیئر کریں۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’یہ درست سمت میں ایک صحیح قدم ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا اس کا مستقبل بھی جے آئی ڈی کی طرح تو نہیں ہوگا؟ جے آئی ڈی پر بھی کئی سال کام کرنے کے بعد اسے بنایا گیا تھا لیکن اس کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ اسے فعال کرنے کے بجائے نفٹیک بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘
عہدے دار نے کہا کہ ’اب اگر صوبوں کے ساتھ اشتراک کر کے نفٹیک دہشت گردی سے نمٹنے پر باقاعدہ کام کرے تو بہتر ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے سے متعلق متعدد مرتبہ کہا گیا لیکن نفٹیک کا انجام بھی جے آئی ڈی کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔‘