اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے منگل کو بات کرتے ہوئے کہا کہ عسکری مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز، خاص طور پر خود مختار ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہونے اور علاقائی اور عالمی سلامتی کے ماحول کو غیر مستحکم کرنے کا خطرہ ہے۔
پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوام متحدہ، سفیر عاصم افتخار احمد نے یہ بات اقوام متحدہ کے ’تخفیفِ اسلحہ کمیشن‘ کے جنرل مباحثے کے دوران پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے کہی۔
#PakistanAtUnitedNations
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) April 9, 2025
Ambassador Asim Iftikhar Ahmad, Pakistan's Permanent Representative to the UN, delivered the national statement during the General Debate of the UN Disarmament Commission Session 2025.
Here are the key points of his statement
▶️ Increased Guided by… pic.twitter.com/Avtp5nZgB9
سفیر عاصم افتخار نے مباحصے کے دوران کہا کہ ’عسکری شعبے میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے سکیورٹی، آپریشنل، تکنیکی، اخلاقی، معیاری اور قانونی چیلنجز ہو سکتے ہیں، خاص طور پر بین الاقوامی انسانی قانون کی تعمیل سے متعلق۔‘
انہوں مصنوعی ذہانت کے عسکری شعبے میں استعمال پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مصنوعی ذہانت روزمرہ زندگی میں تیزی سے سرایت کر رہی ہے، اور اس کے فوجی مقاصد کے لیے استعمال سے بین الاقوامی امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ خودکار ہتھیاروں اور اے آئی ٹیکنالوجیز کی غیر منضبط افزائش خطے اور عالمی سطح پر عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے عاصم افتخار نے کہا کہ ’نئی جنگی ٹیکنالوجیز اور ہتھیاروں کی تیاری، تعیناتی اور استعمال کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر بروقت قدم نہ اٹھایا گیا تو اسلحے کی دوڑ خلا، سائبر سپیس اور سمندری حدود تک پھیل سکتی ہے۔‘
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ’اے آئی سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ، ہمہ گیر اور کثیرالجہتی حکمت عملی اپنائی جائے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اقوام متحدہ کو اس معاملے میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے مستقل مندوب نے تجویز دی کہ ’ایک ایسا جامع فریم ورک تیار کیا جائے جو عسکری اے آئی کے استعمال کو ضابطے میں لائے، تاکہ نہ صرف موجودہ خطرات سے نمٹا جا سکے بلکہ مستقبل میں اسلحہ کی نئی دوڑ کو بھی روکا جا سکے۔‘