کراچی کے معروف میٹروپول کی دہائیوں بعد مرمت شروع

ہوٹل میٹروپول سندھ کے ثقافتی ورثہ قانون کے تحت ’پروٹیکٹیڈ ہیریٹیج سائیٹ‘ قرار دی گئی عمارت کا درجہ بھی حاصل ہے۔

قیام پاکستان کے بعد جب کراچی کو ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیا تو اس وقت تعمیر ہونے والے شہر کے انتہائی پرآسائش اور مہنگے ہوٹل میٹروپول کی کئی دہائیوں بعد تزین و آرائش کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

انتہائی زبوں حالی کے شکار ہوٹل میٹروپول کی پانچ منزلہ عمارت کو چاروں طرف سے ہرا پردا باندھ کر مرمت کیا جا رہا ہے۔

ہوٹل میٹروپول سندھ کے ثقافتی ورثہ قانون کے تحت ’پروٹیکٹیڈ ہیریٹیج سائیٹ‘ قرار دی گئی عمارت کا درجہ بھی حاصل ہے۔

اس ہوٹل کی تعمیر کا کام 1948 میں شروع ہوا اور مکمل ہونے کے بعد اس کا افتتاح 1951 میں کیا گیا تھا جبکہ اسے عوام کے باقاعدہ طور پر 1954 میں کھولا گیا تھا۔

سندھ میں آثار قدیمہ اور ورثہ قرار دی گئیں عمارتوں کا انتظام سنبھالنے والے سندھ کے صوبائی محکمہ اینٹیکوٹیز اینڈ آرکیالوجی کے اینٹیکوٹیز بورڈ ممبر اور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کلیم لاشاری کے مطابق ’پروٹیکٹیڈ ہیریٹیج سائیٹ‘ قرار دی گئی عمارت کو مسمار کر کے نئی عمارت بنانے کی اجازت نہیں، اس لیے اس تاریخی عمارت کی مرمت کی جا رہی ہے۔

بقول ڈاکٹر کلیم لاشاری: ’ہوٹل انتظامیہ نے کچھ وقت قبل ہوٹل کی عمارت کی مرمت کے لیے محکمے کو درخواست دی اور ثقافتی ورثے کے قانون کے مطابق ’پروٹیکٹیڈ ہیریٹیج سائیٹ‘ قرار دی گئی عمارت کو زبون حال نہیں رکھا جاتا، اس لیے محکمے نے اس عمارت کی مرمت کی اجازت دے دی۔‘

اس سلسلے میں عمارت کی مرمت کے متعلق مزید معلومات کے لیے مرمتی کام کرانے والی کمپنی میگا کانگلومریٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کی ویب سائٹ پر دیے گئے ای میل ایڈریس پر تحریر سوالات بھیجے گئے، مگر کئی روز گزرنے کے باجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ہوٹل میٹروپول کی تعمیر کی تاریخ پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر کلیم لاشاری نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا گیا، مگر اس وقت کراچی میں وہ سہولیات نہیں تھیں جو دارالحکومت میں ہونی چاہیں۔ اس لیے حکومت وقت نے لوگوں کو آفر دی اور شہر کے کاروباری افراد نے اس آفر کا فائدہ اٹھایا۔

ڈاکٹر کلیم لاشاری کے مطابق: ’اس دور میں ہوٹلز کی معیار کی بنیاد پر درجہ بندی سٹارز میں نہیں بلکہ کلاس میں کی جاتی تھی۔ جیسے اے کلاس ہوٹل، بی کلاس ہوٹل، سی کلاس ہوٹل۔

’اس دور میں کراچی میں ہوٹل ایسٹر، ہوٹل برسٹل تھا۔ عام طور پر تمام ہوٹلز اس گرد ونواح میں ہوتے تھے، تاکہ ٹرین سے آنے والے مسافروں کو باآسانی ہوٹل میسر ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ سندھ جاگیردار ہوٹل اور سندھ زمیندار ہوٹل تھے، مگر ان میں بھی رواجی سہولیات میسر تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلیم لاشاری کے مطابق اس لیے حکومت نے کاروباری افراد کی سہولیت کے لیے شہر میں دو مقامات پر نئے ہوٹلز کی تعمیر کے لیے مناسب قیمت پر زمین الاٹ کی۔

’ان میں ایک بیچ لگژری ہوٹل اور دوسرا ہوٹل میٹروپول کی تعمیر تھے۔ اس وقت باضابطہ حکومتی سرپرستی میں ان دونوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ یہ ہوٹل پارسی سیٹھ کو الاٹ ہوئے۔‘

صوبائی محکمہ اینٹیکوٹیز اینڈ آرکیالوجی کے اینٹیکوٹیز بورڈ ممبر اور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کلیم لاشاری بتاتے ہیں کہ ’دونوں ہوٹلوں پر 1948 میں کام شروع ہوا اور اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ نے ہوٹل کی تعمیر کا افتتاح کیا۔

’جب ہوٹل میٹروپول مکمل ہو گیا تو اس ہوٹل میں بہت سارے سفارتی دفاتر بننا شروع ہوئے۔ کینیڈا کے سفارت خانہ اس ہوٹل میں قائم ہوا۔ امریکی سفارت خانے کی تمام تقریبات ہوٹل میٹروپول میں منعقد ہونا شروع ہو گئیں۔

’جرمن کلچر سینٹر کا ریڈنگ روم بھی اس ہوٹل میں بنا دیا گیا۔ اس طرح اس ہوٹل میں تمام بنیادی سہولیات کے قیام کا آغاز ہوا۔ پوسٹ آفس بھی قائم ہوا۔ میڈیکل سٹور بھی کھلا۔ ٹریول ایجنسیز کے دفاتر بھی اس قائم ہونا شروع ہو گئے۔ اس طرح ہوٹل میٹروپول میں اس وقت ایسا ماحول بنا جو آج کے فائیو سٹار ہوٹل کا ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر کلیم لاشاری کے مطابق ’اس دور میں کراچی میں نائیٹ کلب کا بھی رواج تھا، مگر سب سے بہترین نائیٹ کلب ہوٹل میٹروپول میں واقع تھے۔ جہاں موسیقی اور رقصے کے ساتھ ثقافتی تقریبات ہوتی تھیں، مگر بعد میں 1960 کی دہائی میں جب ہوٹل انٹرکانٹینیٹل بنا تو ہوٹل میٹروپول کی تمام رونقیں وہاں منتقل ہونا شروع ہوگئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے بعد سندھ میں ثقافتی ورثے کے قوانین نافذ ہوگئے، جس کے بعد ان عمارتوں کو ثقافتی ورثہ کے طور قرار دیا گیا، جن کی ثقافتی اہمیت تھی۔ اس طرح ہوٹل میٹروپول کو بھی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان