دکنی زبان: حیدرآبادی ثقافتی ورثے کا ایک اٹوٹ حصہ

دکنی زبان کی ابتدا فارسی، شمالی ہندوستانی زبانوں اور دکن کے علاقے کی مقامی زبانوں—تیلگو، کنڑ اور مراٹھی—کے مرکب سے ہوئی۔ یہ زبان بہمنی سلاطین کے دور میں پروان چڑھی اور بعد میں قطب شاہی اور عادل شاہی دور میں اس زبان کو ایک الگ ہی مقام حاصل ہوا۔

حیدرآباد کا قیمتی ورثہ دکنی زبان، جسے کبھی ایک آزاد زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا، آج ایک محدود بولی کے طور پر موجود ہے۔

یہ زبان تقریباً 700 سال قبل بہمنی دور میں وجود میں آئی اور اپنی منفرد نوعیت کی وجہ سے آج بھی لوگوں میں مقبول ہے۔ اگرچہ گذشتہ 80 سالوں میں سرکاری سرپرستی کی کمی کی وجہ سے یہ ایک ادبی شکل کے طور پر کمزور پڑ گئی ہے، لیکن یہ بولی جانے والی زبان کے طور پر متحرک ہے۔

دکنی زبان کی ابتدا فارسی، شمالی ہندوستانی زبانوں اور دکن کے علاقے کی مقامی زبانوں—تیلگو، کنڑ اور مراٹھی—کے مرکب سے ہوئی۔ یہ زبان بہمنی سلاطین کے دور میں پروان چڑھی اور بعد میں قطب شاہی اور عادل شاہی دور میں اس زبان کو ایک الگ ہی مقام حاصل ہوا۔ حیدرآباد کے بانی محمد قلی قطب شاہ کو پہلا مشہور دکنی شاعر مانا جاتا ہے۔ اس زبان کا ایک منفرد حسن ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دکنی اور اردو ایک ہی زبان کی دو صورتیں ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں بولی جانے والی دکنی نے مقامی اثرات کی وجہ سے ایک منفرد اسلوب تیار کیا، جب کہ اردو ایک معیاری ادبی زبان بن گئی۔

اُدیش رانی باوا کو حیدرآبادی ثقافت اور ورثے کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک اردو سکالر ہیں۔ اُن کی تحقیق اور علم صرف اردو زبان تک ہی محدود نہیں، بلکہ انھوں نے دکنی ادب اور تاریخ کو بھی بخوبی سمجھا اور پیش کیا ہے۔

اُدیش رانی باوا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ شمالی انڈیا میں بولی جانے والی اردو اور حیدرآباد میں بولی جانے والی اردو میں تھوڑا سا فرق ہے۔ لیکن جب لکھنے کی بات آتی ہے تو ہم خالص اردو لکھتے ہیں اور دکنی کم استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دکنی زبان کی اپنی الگ پہچان ہے اور اسے ادب اور تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔

دکنی زبان و ادب پر گہری روشنی ڈالتے ہوئے اُدیش رانی باوا نے کہا کہ دکنی شاعر مرزا نے پہلا مرثیہ لکھا۔ اس کے علاوہ محمد قلی قطب شاہ، ملا وجہی، نشاطی اور دوسرے بہت سے مشہور شاعروں نے دکنی میں شاعری کی۔ لیکن ان کے بعد اس زبان کی مقبولیت میں کمی آئی اور یہ صرف بولی جانے والی زبان تک محدود ہو گئی، کیونکہ فنکار اور سپاہی ایک دوسرے سے ملے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔

دکنی زبان کے ارتقا کی وضاحت کرتے ہوئے اُدیش رانی باوا کہتی ہیں کہ یہ زبان تین مختلف زبانوں کا مرکب ہے۔ دکنی زبان مختلف ثقافتوں، زبانوں اور برادریوں کے لوگوں کے باہمی میل جول سے وجود میں آئی۔ یہ نہ صرف ایک زبان تھی بلکہ جنوبی ہندوستان اور شمالی ہندوستان کی ثقافتوں کے سنگم کی علامت بھی تھی۔

دکنی زبان کی اہم خصوصیات اس کی سادگی اور لوک زندگی سے قربت ہے۔ یہ زبان فارسی اور ہندوستانی زبانوں کے مرکب سے تیار ہوئی، جس کی وجہ سے اس میں متنوع لسانی اور ثقافتی عناصر شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ زبان سپاہیوں، تاجروں اور عام لوگوں کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ بن گئی۔

اُدیش رانی باوا کا خیال ہے کہ دکنی زبان اور ادب کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس زبان میں بے شمار انمول ادبی تصانیف ہیں جو ہمیں دکنی ثقافت اور تاریخ کی گہری جھلک دیتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ادب اور زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک پوری تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا مقصد بھی پورا کرتے ہیں۔

آج جب ہمارا معاشرہ عالمگیریت اور جدیدیت کی طرف بڑھ رہا ہے تو علاقائی زبانوں اور بولیوں کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ اردو اور دکنی زبان میں فرق اور مماثلت کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے لسانی ورثے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے نئی نسل تک پہنچانا چاہیے۔

اُدیش رانی باوا کی خدمات اور تحقیقی کام نے نہ صرف دکنی زبان اور ادب کو ایک نیا تناظر دیا ہے بلکہ حیدرآبادی ثقافت کو بھی تقویت بخشی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دکنی شاعری، جو جنوبی ہند میں پروان چڑھی، نے شمالی ہند میں اردو ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ دکنی زبان کو تحریری شکل میں محفوظ کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے، لیکن بولی جانے والی شکل میں یہ بہت مقبول ہے۔ اُن کے مطابق دکنی ہمیشہ ایک بولی کے طور پر زندہ رہے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دکنی کے مشہور الفاظ اور ان کی شناخت حیدرآباد کی ایک الگ پہچان ہے اور اس کے بہت سے منفرد الفاظ اور محاورے ہیں جو اسے دوسری زبانوں سے مختلف بناتے ہیں۔

عاصم عابدی کا تعلق حیدرآباد کے پرانے شہر سے ہے۔ وہ ایک مقامی ایف ایم سٹیشن میں ریڈیو جاکی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حیدرآبادی اپنی روزمرہ کی گفتگو میں دکنی کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عام دکنی الفاظ کی مثالیں دیں، جیسے: ہاو (ہاں)، نکو (نہیں)، باتاں (چیزیں)، موت ڈل دیے (اچھے لگ رہے ہو)، ہول شاؤلے (سست شخص)۔ یہ الفاظ حیدرآبادی معاشرے میں بہت عام ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ نئی نسل انگریزی کے اثر کی وجہ سے دکنی سے دور ہوتی جا رہی ہے، لیکن یہ بولی سوشل میڈیا اور سنیما کے ذریعہ دوبارہ مقبول ہو رہی ہے۔ بہت سے لوگ یوٹیوب، واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر دکنی میں مزاحیہ ویڈیوز اور دیگر مواد تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ بولی نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حیدرآبادی فلموں، مشاعروں اور ڈراموں کے ذریعے بھی اس زبان کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

عاصم عابدی کے مطابق دکنی زبان کا مستقبل محفوظ سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ لاکھوں لوگوں کی مادری زبان ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کا اثر بڑھتا جا رہا ہے۔ انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں کے الفاظ اس میں گھل مل رہے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی اصلی شکل کسی حد تک بدل رہی ہے۔

عاصم عابدی نے بتایا کہ دکنی زبان حیدرآباد کے پورے ثقافتی ورثے کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پوری ثقافتی شناخت کی علامت ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر اسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی، لیکن یہ بولی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور آنے والی نسلوں تک پہنچائی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا