بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پھل تاجران نے کہا کہ ہندو یاترا کے دوران سکیورٹی کریک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے سیب، ناشپاتی اور دوسرے پھلوں سے بھرے ٹرک ٹریفک جام میں پھنس گئے ہیں جو ان کے لیے بڑے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہزاروں افراد ہمالیہ کے غاروں میں امرناتھ یاترا کے لیے متنازع علاقے میں آتے ہیں۔
اس سال یاتریوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے کیوں یہ یاترا وبائی مرض کے دوران 2021 میں بند کر دی گئی تھی۔ اس وقت سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں ہے۔ پولیس نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ یاتریوں پر حملے کی عسکریت پسندوں کا منصوبہ کا پکڑا گیا ہے۔
کشمیر ویلی فروٹ گرورز اینڈ ڈیلرز یونین تعلق رکھنے والے بشیر احمد بشیر نے روئٹرز کو بتایا کہ پھلوں سے لدے ٹرک پھنسے ہوئے ہیں کیوں کہ سیکورٹی فورسز نے خطرے کا جائزہ لینے کے لیے ٹریفک روک رکھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ’ تازہ اتارے گئے آلو بخارے، آڑو، ناشپاتی اور سیب کشمیر سے باہر لے جانے کی ضرورت ہے ورنہ اس گرمی میں وہ گل سڑ سکتے ہیں اور ہمیں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
خطے میں انتظامی امور انجام دینے والے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے تسلیم کیا کہ مسئلہ موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ٹریفک میں روانی لانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’ ٹرکوں کو صرف اس وقت روکا جائے گا جب یاتری ہائی وے پر سفر کریں گے اور خراب ہونے والی اشیا سے لدے ٹرکوں کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘
جون میں مسلم اکثریتی علاقے میں ہندو یاترا شروع ہونے کے بعد سے بھارتی فوجی خودکار اسالٹ رائفلیں لے کر اور بلٹ پروف جیکٹس پہنے سڑکوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔
باغات کے مالک غلام محمد ملک نے روئٹرز کو بتایا کہ ’یاتری ہمارے مہمان ہیں لیکن ہمارے ٹرکوں کو نہیں روکا جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک کی صورت حال میں بہتری نہ آئی تو کسانوں اور تاجروں کو تین کروڑ بھارتی روپے یومیہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کاشت کار یونین کے مطابق پھلوں کی پیداوار کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور یہ شعبہ تقریباً 30 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
یاترا کے دوران ہندو پہاڑ کی غار تک پہنچنے کے لیے گلیشیئرز اور گیلے راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ غار میں میں ایک برف کی شکل میں کیلشیم کاربونیٹ کا ٹکرا موجود ہے جسے ہندو دیوتا شیو کا جسمانی مظہر سمجھا جاتا ہے۔
غار سال کا زیادہ تر حصہ برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ حکام کی طرف سے موسم گرما میں یاتریوں کو 45 دن تک یہاں آنے کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی بدولت راستے صاف ہو جاتے ہیں