وقتی طور پر صحیح لیکن معیشت کے سنبھلنے کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ حکومت کو ان مشکل فیصلوں کی سیاسی قیمت ادا کرنی ہوگی لیکن سخت فیصلوں کی اصل قیمت مہنگائی کی لہر کے اثرات مرتب ہونے کے بعد عوام ہی ادا کریں گے۔
چیلنج اب یہ ہے کہ عین اس وقت جب ستمبر-اکتوبر میں آرمی چیف کی تعیناتی کی اہم مشاورت اور فیصلہ ہو رہا ہوگا، حکومت کو بیک وقت اتحادیوں کو راضی رکھنا اور سخت معاشی فیصلوں کے اثرات کی لٹکتی تلوار کا سامنا کرنا ہو گا۔
شہباز شریف ڈیلیور کرنے کا جو ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں اسے پرکھنے کی ضرورت نہیں لیکن وہ ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دو اور مسئلے سر اٹھا چکے ہوتے ہیں۔
ایک طرف آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عمل پیرا ہونے کے باوجود ابھی تک سٹاف لیول کے معاہدے پر دستخط نہیں ہو پا رہے تو دوسری جانب ناراض اتحادیوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔
مینگل صاحب کا معاملہ ’لاپتہ افراد‘ کچھ اور ہے، بلوچستان عوامی پارٹی کے مسائل کچھ اور، اور ایم کیو ایم کی ’ہزیمت‘ تو بہت ہی مختلف۔ ایسے میں وزیراعظم کو فوراً مولانا کی تیمارداری کے علاوہ تمام اتحادیوں کے پاس دوڑ کے جانا پڑ رہا ہے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب معاشی اور توانائی سیکٹر میں دھڑلے سے فیصلے کرنا ملک کی مجبوری ہے۔
ایک اور اتحادی جماعت، عوامی نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی کی اتنی قریب ہو چکی ہے کہ ایمل ولی اب کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی سے انتخابی اتحاد خارج از امکان نہیں۔
پہلے بھی اپنے کالم کے ذریعے شہباز شریف صاحب کو یہ بتانے کی کوشش کر چکا ہوں کہ آپ کا مقابلہ عمران خان سے کم اور درپیش چیلنجز سے زیادہ ہے۔ اتحادیوں کو خوش رکھنے کے ساتھ ساتھ اب وزیراعظم صاحب کو پنجاب کے ضمنی انتخابات کا سامنا ہے اور ایک بڑا چیلنج ڈسکہ کے ضمنی انتخابات جیسے معاملات کو روکنا بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں 20 سیٹوں پر مقابلہ ہونا ہے، کم از کم 10 ’الیکٹیبلز‘ ایسے ہیں جو آزاد حیثیت میں جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور یہ تمام حضرات اس وقت ن لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی سپورٹ کر رہی ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی ’برقرار‘ ہے، لیکن نتائج کا کیا بھروسہ؟ اس بات کے امکانات کم صحیح لیکن اگر نتائج پھر بھی ناپسندیدہ آ گئے تو لائحہ عمل کیا ہو گا؟
معاشی طور پر ناگزیر جتنے مشکل فیصلے ن لیگ کی اتحادی حکومت کر چکی ہے، تو ان کو یقیناً اس بات کا اندازہ بھی ہونا چاہیے کہ اس وقت سڑکوں اور گلی محلے میں آپ کی مقبولیت کہاں کھڑی ہے؟
چند مہینے اگر فاسٹ فارورڈ کر کے بھی معاملات کو پرکھنے کی کوشش کی جائے تو حالات اتحادی حکومت کے لیے کچھ زیادہ موافق نہیں لگتے۔ نئے آرمی چیف کی تعنیاتی یا مدت معیاد میں توسیع ایک بڑا چیلنج ہوگا جس میں سب کا ایک پیج پر ہونا ضروری اور لازمی ہے۔
ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ حکومت کا کوئی اتحادی فی الحال اسے چھوڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ نہ ہی ’فی الحال‘ ایسا ہو گا لیکن شہباز شریف کو درپیش چیلنجز جس رفتار سے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں، بالکل اسی رفتار سے ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔
دوسری جانب عمران خان صاحب کسی اور ڈگر پر گامزن ہیں۔ ایک طرف کھلی مزاحمت تو دوسری جانب بیک ڈور مفاہمت۔ ان کا یہ سلسلہ کتنا عرصہ چلے گا یہ بھی آئندہ کچھ عرصے میں سامنے آنے والے حقائق مزید واضح کر دیں گے۔ وہ جتنا جلدی فوری الیکشن چاہتے ہیں اتنی جلدی انتخابات موجودہ حالات میں ممکن ہی نہیں ہیں، نہ ہی موجودہ معاشی حالات میں ملک نئے انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کا گرین سگنل شہباز شریف حکومت کے لیے نئی لائف لائن ہو گی جس کے بعد ممالک، عالمی بینک اور اے ڈی بی آگے آئیں گے لیکن اس کے باوجود بھی کچھ وجوہات کی بنا پر اتحادی حکومت کی کشتی ہچکولے ہی کھاتی رہے گی۔
ایک وسیع سوچ یہ ہے کہ پاکستان کی ہچکولے کھاتی کشتی شاید پھر بھی پار لگ جائے گی۔ خان صاحب کو اس کشتی کا نہ صرف متبادل ڈھونڈنا ہے بلکہ یہ اعتماد بھی بحال کروانا ہے کہ وہی ہیں جو پاکستان کو بچا سکتے ہیں۔ کیا خان صاحب ایسا کر پائیں گے؟ اس وقت بظاہر ایسا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔