وٹس ایپ کے صارفین اب اپنے بھیجے گئے میسج کو ڈھائی دن تک ڈیلیٹ (حذف) کر سکیں گے۔
وٹس ایپ کی مالک کمپنی میٹا نے اعلان کیا ہے کہ بھیجے گئے قابل افسوس میسج کو ڈیلیٹ کرنے کا وقت بڑھا کر ڈھائی دن کر دیا گیا ہے۔
ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ’اپنے میسج پر دوبارہ غور کر رہے ہیں؟ اب آپ کے پاس اپنی چیٹس سے پیغامات ڈیلیٹ کرنے کے لیے دو دن سے کچھ زیادہ وقت ہوگا۔‘
Rethinking your message? Now you’ll have a little over 2 days to delete your messages from your chats after you hit send.
— WhatsApp (@WhatsApp) August 8, 2022
درحقیقت وقت دو دن اور 12 گھنٹے یا مجموعی طور پر 60 گھنٹے ہے۔
اس سے قبل یہ وقت ایک گھنٹہ، آٹھ منٹ اور 16 سیکنڈ تھا۔
یہ فیچر2017 میں جب پہلی بار متعارف کرایا گیا تو اس وقت صارفین صرف سات منٹ کے اندر میسج ڈیلیٹ کر سکتے تھے لیکن اس وقت میں بتدریج اضافہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب پہلی بار فیچر متعارف کرایا گیا، اس وقت میسج ڈیلیٹ کرنے سے ایک نوٹ رہ جاتا تھا جس میں کہا جاتا تھا کہ کچھ ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے، لیکن صارفین کسی بھی طرح یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کیا ڈیلیٹ ہوا۔
اپنے پیغام کو حذف کرنے کے لیے صارفین کے پاس مختلف ایپس پر وقت کا دورانیہ مختلف ہے۔
مثال کے طور پر ایپل اس موسم خزاں میں ڈیلیٹ فیچر متعارف کرا رہا ہے لیکن وقت کو چار منٹ سے کم کرکے دو کر دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس ٹیلی گرام پر اس وقت کی حد نہیں ہے۔
وٹس ایپ اب بھی صارفین کو بھیجے گئے میسجز میں ترمیم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پیغامات صرف ڈیلیٹ ہو سکتے ہیں۔
اس کی ایک حریف ایپ ٹیلی گرام نے اس بات کا مذاق اڑایا کہ کچھ ایپس 2022 میں اس طرح کے فیچرز شامل کر رہی ہیں۔
Other apps: Let’s add an edit button in 2022
— Telegram Messenger (@telegram) June 17, 2022
Telegram users editing messages since 2016: pic.twitter.com/mLIwANE6zY
وٹس ایپ میسجز میں ترمیم کی اجازت دینے کا منصوبہ نہیں بنا رہی۔
وٹس ایپ پر ڈیلیٹ کرنے کے وقت میں اضافہ صارفین کے پاس خود بخود ہوجائے گا لیکن ایپ کو اپ ڈیٹ کرنے تک ظاہر نہیں ہوگا۔
وٹس ایپ کی جانب سے پیغامات ڈیلیٹ کرنے کے وقت میں اضافے کا اعلان اس وقت سامنے آیا جب بہت سارے نئے سکیورٹی فیچرز متعارف کرائے گئے ہیں جو کہ صارفین کو دوسرے لوگوں کے ساتھ شیئر کی گئی اپنی معلومات پر زیادہ کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔
© The Independent