چین میں انسانوں اور انسان نما روبوٹس کے درمیان دنیا کی پہلی دوڑ

یہ نیم میراتھن تقریباً 21 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط ہوگی اور اس کا اہتمام دارالحکومت کے داکسنگ انڈسٹریل زون میں واقع بیجنگ اکنامک ٹیکنالوجیکل ڈیولپمنٹ ایریا یا ای ٹاؤن میں کیا جا رہا ہے۔

چین میں 23 جون 2024 کو ورلڈ انٹیلی جنس ایکسپو کے دوران بچے ٹیسلا کے انسان نما روبوٹ کو قریب سے دیکھ رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

چین اپریل میں دنیا کی پہلی ایسی دوڑ کا اہتمام کر رہا ہے جس میں انسانوں اور انسان نما روبوٹس کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ یہ مقابلہ بیجنگ کے مصنوعی ذہانت کے مقاصد کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ نیم میراتھن تقریباً 21 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط ہوگی اور اس کا اہتمام دارالحکومت کے داکسنگ انڈسٹریل زون میں واقع بیجنگ اکنامک ٹیکنالوجیکل ڈیولپمنٹ ایریا یا ای ٹاؤن میں کیا جا رہا ہے۔

ای ٹاؤن میں ایک سو سے زیادہ کمپنیاں قائم ہیں جو روبوٹکس کے بنیادی اجزا، مکمل مشینیں، اور متعلقہ ایپلی کیشنز تیار کرتی ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق اس علاقے کا شہر کی تقریباً 10 ارب یوآن (1.1 ارب پاؤنڈ) کی پیداوار میں نصف حصہ ہے۔

میراتھن میں تقریباً 12 ہزار انسانوں اور انسانی نما روبوٹس کی شرکت متوقع ہے اور ٹاپ کے تین دوڑنے والوں کو انعامات دیے جائیں گے۔

صنعتی زون حکام کے مطابق، کمپنیوں، تحقیقی اداروں، روبوٹکس کلبز، اور عالمی جامعات کو اس میراتھن میں اپنے انسان نما روبوٹس شامل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

ایک اہم شرط یہ ہے کہ دوڑ میں حصہ لینے والے تمام روبوٹس کی ’انسانی شکل اور دو پیروں پر چلنے یا دوڑنے کے قابل میکانی ساخت‘ ہونا ضروری ہے۔

ای ٹاؤن حکام کے بیان کے مطابق دوڑ میں شریک روبوٹس کا قد 0.5 میٹر سے دو میٹر کے درمیان ہونا چاہیے اور کولہے کے جوڑ سے پاؤں کے تلوے تک زیادہ سے زیادہ لمبائی 0.45 میٹر ہونی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مقابلہ دونوں قسم کے روبوٹس کے لیے ہے۔ ریموٹ کنٹرولڈ اور مکمل خودمختار انسانی نما روبوٹس۔ اس میں دوڑ کے دوران روبوٹس کی بیٹریاں بدلنے کی اجازت بھی ہوگی۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’آگے بڑھتے ہوئے، بیجنگ ای ٹاؤن جدید ترین مصنوعی ذہانت کی جسم کی شکل میں ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے، اعلیٰ معیار کے انسان نما مصنوعات کو صنعتی سطح پر لانے، اور ایک اعلیٰ درجے کے اختراعی ماحولیاتی نظام کو پروان چڑھانے پر توجہ مرکوز کرے گا۔‘

سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق چین مکمل روبوٹک ماحولیاتی نظام کے فروغ پر نظر رکھے ہوئے ہے، جس کی صنعت 2030 کے اختتام تک تقریباً 54 ارب ڈالر (43.4 ارب پاؤنڈ) تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ گذشتہ سال بیجنگ میں منعقد ہونے والی ایک میراتھن میں بھی ایک انسان نما روبوٹ نے انسانوں کے ساتھ دوڑ میں حصہ لیا، لیکن چینی کمپنی گیل بوٹ کا روبوٹ نے صرف اختتامی لائن کے قریب پہنچ کر شرکا کا حوصلہ بڑھایا۔

مجوزہ مقابلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کا مستحکم نظام بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ یہ ایسا میدان ہے جہاں امریکہ اور چین قریبی حریف بن کر ابھرے ہیں۔

گذشتہ سال امریکی نمائندوں نے بند کمرے میں ہونے والے مذاکرات میں چین کی جانب سے ’مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔ واشنگٹن نے چین میں اس ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کو عملی شکل دی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی