سٹار لنک سروسز ویب مینیجمنٹ سسٹم کے ذریعے ہی دی جائیں گی: چیئرمین پی ٹی اے

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں سینیٹرز نے سٹار لنک کے مالک ایلون مسک کے بعض بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’پاکستان مخالف‘ قرار دیا۔

اسلام آباد میں قائم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی عمارت کا بیرونی منظر (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین کے مطابق ایلون مسک کی انٹرنیٹ کمپنی سٹار لنک کو بھی ویب مینیجمنٹ سسٹم کے ذریعے راؤٹ کیا جائے گا۔

چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سٹار لنک کا ریڈیس22  کلومیٹر ہے۔

سٹار لنک کی رجسٹریشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ریگولیٹری باڈی کی رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد سٹار لنک کو لائسنس دیا جائے گا۔

چیئرمین پی ٹی اے نے یہ بھی بتایا ہے کہ چین کی سیٹیلائٹ کمپنی ایس ایس ڈی نے بھی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی ہے  تاہم ان کے دستاویزات مکمل نہیں ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب چیئرمین پی ٹی اے سے سوال کیا کہ کیا سٹار لنک کے انٹرنیٹ کو بھی ویب مینجمنٹ سسٹم یا فائر وال کے ذریعے راؤٹ کیا جائے گا؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’سٹار لنک ویب مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے ہی راؤٹ کیا جائے گا۔‘

سٹار لنک کیا ہے؟

سٹار لنک انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی ہے جو خلائی کمپنی ’سپیس ایکس‘کا حصہ ہے۔

یہ دیگر انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیوں سے اس طرح مختلف ہے کہ یہ سیٹیلائٹ کے ذریعے سہولیات فراہم کرتی ہے۔

سٹار لنک کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق اس وقت دنیا کے 100 ممالک میں سٹار لنک کی سہولیات استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

’سٹار لنک سیٹیلائٹ کے ذریعے جنگل، سمندروں کی تہہ، پہاڑوں، غاروں اور فضائی سفر کے دوران بھی انٹرنیٹ استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

سٹار لنک کی رجسٹریشن کہاں پہنچی؟

سینیٹر پلوشہ خان کے زیر صدارت ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں بدھ کو سٹار لنک پر بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ ملک میں پہلے سپیس پالیسی پر کام نہیں ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس پالیسی کو سال 2023 میں منظور کیا گیا جس کے بعد اس کے قوانین کی منظوری دی گئی۔ اور اس کے تحت نئی ریگولیٹری باڈی (پاکستان سپیس ایکٹیوٹی ریگولیٹری باڈی) بنائی گئی۔

چیئرمین پی ٹی اے نے سٹار لنک کی رجسٹریشن سے متعلق بتایا کہ کمپنی نے 24 فروری 2022 میں پی ٹی اے لائسنس کے لیے اپلائی کیا جسے وزارت آئی ٹی کو سکیورٹی کلیئرنس کے لیے بھیج دیا گیا۔

ان کے مطابق یہ معاملہ 11 مارچ سے اس نئی ریگولیٹری باڈی کے پاس ہے جس کی منظوری کے بعد پی ٹی اے سٹار لنک کو لائسنس دے گی۔

چیئرمین پی ٹی اے نے رجسٹریشن کا عمل بتاتے ہوئے کہا کہ کمپنی کی رجسٹریشن پہلے ایس ای سی پی کرتی ہے جس کے بعد پاکستان سپیس ایکٹیوٹی ریگولیٹری باڈی اس کی رجسٹریشن کرے گی۔ اس کے بعد پی ٹی اے اور/ یا پیمرا کے پاس یہ درخواست جاتی ہے۔ یہ تمام عمل تمام سیٹیلائٹس کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ 

انہوں نے اس حوالے سے کمیٹی کو مزید بتایا کہ سٹار لنک کو اس وقت تک لائسنس نہیں دے سکتے جب تک حکومت کی جانب سے کلیئرنس نہیں ہوگی۔

’سٹار لنک کی ٹریفک گیٹ ویز کے ذریعے ہوگی، سٹار لنک نے کہا تھا کہ وہ حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کریں گے اور سسٹم کو بائی پاس نہیں کریں گے۔‘

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کی گئیں تفصیلات کے مطابق سیٹیلائٹ پر مبنی ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کسی بھی سیٹلائٹ سروس کے ذریعے پی ٹی اے لائسنسنگ اور قانونی مداخلت کی سہولت کی فراہمی کے بعد صارفین کو فراہم کی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ایل ڈی آئی لائسنس یافتہ کسی بھی غیر ملکی یا مقامی آپریٹر سے سیٹیلائٹ بینڈ وڈتھ حاصل کر کے لائسنس کے دائرہ کار کے مطابق ٹیلی کام خدمات دے سکتے ہیں۔

پی ٹی اے نے بتایا ہے کہ پی ٹی سی ایل تاحال کوئی بھی سیٹیلائٹ سروس براہ راست صارفین کو فراہم نہیں کر رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ’سٹار لنک انٹرنیٹ سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ‘ نے پاکستان میں دو، تین گراؤنڈ سٹیشن قائم کر کے لو ارتھ آربٹ میں سیٹلائٹس سے صارفین کو براہ راست انٹرنیٹ خدمات کی فراہمی کے لیے پی ٹی اے سے اجازت مانگی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ٹی اے کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق سال 2022 میں سیٹلائٹ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سٹارلنک نے انٹرنیٹ خدمات کی فراہمی کے لیے ایل ڈی آئی لائسنس کے لیے فروری 2022 اور 14 مقامی لوپ لائسنسز کے لیے 29 اپریل 2022 کو اپلائی کیا۔

اس کے بعد یہ کیس وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پاس آیا جہاں کارروائی کے بعد بتایا گیا کہ سٹار لنک سیٹلائٹس میں نقصان دینے والی مداخلت کی کسی بھی رپورٹ کے بغیر اس کے آپریشنز کو غیر خصوصی، عدم مداخلت اور عدم تحفظ کی بنیاد پر سمجھا جا سکتا ہے۔

اجلاس کے دوران کیا ہوا؟

اس سے قبل بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس ہوا جس کے دوران رکن سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ایلون مسک، جو سٹار لنک کے مالک ہیں، نے ’پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم‘ چلائی ہے۔

سینیٹر افنان اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی کمپنی جو پاکستان میں کاروبار کرنا چاہتی ہے وہ ایسا کر سکتی ہے؟ ’برطانوی حکومت نے ایلون مسک کے الزامات کو غلط قرار دیا۔‘

ایلون مسک کے بیانات پر تشویش کا اظہار

چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ’ایلون مسک نے پاکستان مخالف موقف اختیار کیا جس کے بعد گذشتہ دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ہائیپ بنی۔‘

جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت آئی ٹی نے کہا کہ ’گذشتہ دنوں ایلون مسک نے ایک ٹوئٹ کی جس کے بعد یہ معاملہ پھر اٹھا۔‘

سینیٹر پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا نے مسک کے بیان کو بہت اچھالا، مسک کی سرگرمیاں پاکستان مخالف ہیں۔‘

وزارت آئی ٹی حکام نے کہا ہے کہ سٹار لنک نے حکومت کے احکامات پر عملدرآمد کرنے پر حامی بھری ہے۔ ’جب حکومت چاہے گی وہ سروس بند کرنے کے پابند ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی