پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر کو پارٹی کے خیبر پختونخوا کا صدر بنانے پر تجزیہ کاروں کی مجموعی رائے ہے کہ اس سے موجودہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی گرفت سیاسی معاملات میں کمزور پڑ سکتی ہے۔
جنید اکبر کو کچھ دن قبل پی ٹی آئی کی جانب سے پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے چیئرمین کے طور منتخب کیا گیا تھا جنہیں نے اب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جگہ صوبائی صدر بنایا گیا ہے۔
جنید اکبر کی بطور صوبائی صدر پی ٹی آئی تعیناتی پر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے منقسم ہے تاہم سب سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی پوزیشن سیاسی معاملات میں کمزور پڑے گی۔
محمود جان بابر پشاور میں مقیم سینیئر صحافی و تجزیہ کار ہیں اور ان کے مطابق جنید اکبر کو صوبائی صدر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سیٹ اب عاطف خان گروپ کو چلی گئی ہے اور عاطف خان کو جانے کا مطلب ہے کہ سیٹ اب رکن قومی اسمبلی ارباب شیر خان کو چلی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے علی امین گنڈاپور کی جانب سے رکن صوبائی اسمبلی شکیل خان کو جب ’کرپشن‘ الزامات میں ڈی نوٹیفائی کیا گیا تھا تو اس پر جنید اکبر اور عاطف خان شکیل خان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔
محمود جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جنید اکبر کو شکیل خان کی حمایت کی وجہ سے وزیر اعلٰی علی امین نے بطور فوکل پرسن انہیں عہدے سے گذشتہ سال اگست میں ہٹایا تھا۔‘
جنید اکبر گذشتہ سال علی امین کے اراکین قومی اسمبلی کے معاملات پر وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے فوکل پرسن تھے۔
محمود جان نے بتایا کہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ پارٹی میں گورننس کے ایشوز ہیں اور اسی وجہ سے جنید اکبر کو اب صوبائی صدر بنایا گیا ہے۔
محمود جان نے بتایا کہ ’پارٹی کو اب سمجھ آگیا ہے کہ تمام عہدے علی امین کی ٹوکری میں ڈالنا ٹھیک نہیں تھا اور عاطف خان گروپ کو صوبائی صدارت کی سیٹ جانے کا مطلب ہے کہ علی امین کی پوزیشن خراب ہوگئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرے خیال میں دھرنوں کی وجہ سے علی امین کی پوزیشن خراب ہوگئی ہے اور ان سے عہدہ واپس لینا عدم اعتماد سا ہی ہے اور اس سے علی امین کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی۔‘
ڈان نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام کے میزبان عادل شاہ زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنید اکبر کی بطور صدر تحریک انصاف نامزدگی صوبے کی سیاست اور تحریک انصاف کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ علی امین گنڈا پور کو اندرونی لڑائی میں پہلی بڑی شکست ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عادل شاہ زیب کے مطابق ’اس کے بعد حکومت پر ان کی گرفت کمزور پڑے گی کیونکہ تمام وزرا براہ راست صوبائی صدر کو جوابدہ ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جنید اکبر ایک جارح مزاج سیاسی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اور 26 نومبر کے بعد بے جان پارٹی اور دل برداشتہ کارکنان کو وہ دوبارہ متحرک کر کے احتجاجی تحریک میں نئی جان ڈالیں گے لیکن اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑے گی۔
فدا عدیل پشاور میں مقیم صحافی اور سیاسی معاملات پر وی لاگنگ کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عمران خان کا موجودہ وقت میں جتنا زیادہ انحصار خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی کے اوپر ہے، اس سے کہیں زیادہ اس صوبے میں تحریک انصاف کو قیادت کی سطح پر اندرونی گروپ بندیوں کا سامنا ہے۔
فدا عدیل کے مطابق ایک بڑا گروپ جو پرویز خٹک اور محمود خان کے زمانے میں بھی سرگرم تھا، وہ کسی حد تک عمران خان کو اپنے موقف کے حوالے سے آمادہ کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس گروپ کے بارے میں خیال یہ ہے کہ اس کی سربراہی عاطف خان کرتے ہیں۔ یہ گروپ غالباً وزیر اعلیٰ کی سیٹ پر عاطف خان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ عاطف خان کی تجویز پر جنید اکبر کو صوبائی صدارت کا عہدہ ملنا علی امین گنڈاپور کی وزارت عالیہ کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔‘
فدا عدیل نے مزید بتایا کہ پارٹی عہدے کی موجودگی میں گورننس کے معاملات پر کم توجہ، کابینہ کے بعض ارکان پر مبینہ کرپشن اور نااہلی کے الزامات، پارٹی اور پارلیمانی پارٹی کے ارکان کی کابینہ میں عدم شمولیت کے معاملے پر ناراض ہونا اور پھر پارٹی کے بعض سینیئر رہنماؤں کی شکایات یہ سب عناصر مل کر گنڈاپور پر حملہ آور ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’عمران خان شاید افورڈ نہ کرسکتے کہ اچانک کوئی بڑا فیصلہ کرتے کیونکہ علی امین گنڈاپور کوئی وزیر مشیر نہیں بلکہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ عمران خان تک اس پیغام کو بہت ہی خطرناک شکل دیکر پہنچایا گیا کہ گنڈاپور وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں، حالانکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاید گنڈاپور ہی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے بیچ میں ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرسکتے تھے۔‘
نئے صوبائی صدر کو چیلنجز کے بارے میں فدا عدیل نے بتایا کہ جنید اکبر کے لیے یہی بڑا چیلنج ہے کہ انہوں نے کارکنوں کو کیسے اکھٹا کرنا ہے اور مستقبل میں کیسے سڑکوں پر پریشر بنانا ہے۔