یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
پاکستان کا قیام بیسویں صدی کا ایک منفرد تجربہ تھا۔ سوال اب یہ ہے کہ ہم نے مزید اسے ’تجربہ گاہ‘ بنائے رکھنا ہے یا 75 سال کے تجربات کی روشنی میں کوئی واضح لائحہ عمل تیار کرنا ہے؟
بیسویں صدی انسانوں کے سیاسی شعور کی تسکین کی صدی تھی۔ مسلمانوں کی خلافت عثمانیہ بھی ختم ہو گئی اور برطانیہ کا نوآبادیاتی نظام بھی۔ سلطنت اور خلافت کی جگہ قومی ریاستوں نے لے لی۔
پاکستان اس لحاظ سے ایک منفرد ملک تھا کہ یہ مغربی تصور جمہوریت کے تحت ایک نیشن سٹیٹ بھی تھا اور اسلامی تصور حیات کے تحت ایک اسلامی ریاست بھی۔
یہ جمہوری ریاست بننے جا رہا تھا مگر اس کا تصور جمہوریت مغربی نہ تھا بلکہ اس میں جمہوریت اسلام کے تابع تھی۔ چنانچہ پاکستان میں پارلیمان فیصلہ ساز تو قرار پائی مگر اس کے اختیارات اللہ کی امانت قرار دیے گئے۔
اسی طرح یہ ایک اسلامی ریاست بن رہی تھی مگر یہ ملائیت یا تھیوکریسی نہیں تھی۔ چنانچہ ایک مذہبی شخصیت کو ’شیخ الاسلام‘ بنائے جانے کی تجویز سامنے آئی تو قبول نہیں کی گئی۔
یہ پہلا تجربہ تھا کہ مغرب کے مروجہ جمہوری نظام کو اختیار کرتے ہوئے اسلام کے دائرہ کار میں ایک ریاست تشکیل پا رہی تھی۔ یہاں اجتماعی زندگی تو اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارا جانا طے ہوا مگر اسلام کی تعبیر پر کسی خاص گروہ کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔
چنانچہ اقبال نے یہ تصور پیش کیا کہ نئی ریاست میں اجتہاد تو ہوگا اور نظام زندگی اسلام ہی کے مطابق ہو گا مگر تعبیر دین میں پاپائیت یا ملائیت نہیں ہو گی بلکہ یہ پارلیمان ہو گی جو اجتہاد کرے گی۔
یعنی اقبال کا پارلیمان کا تصور یہ تھا کہ یہاں صاحب علم بیٹھے ہوں گے جو ملک کو درپیش معاملات کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کریں گے اور تعبیر دین میں انہی کی رائے کو قانون کا درجہ حاصل ہو گا۔
نیشن سٹیٹ کے قیام کی عملی اور سیاسی جدوجہد کی قیادت قائد اعظم کر رہے تھے اور ریاست کے فکری اور مذہبی خدوخال کے تعین میں یہ منصب اقبال کے پاس تھا۔
المیہ یہ ہوا کہ ہمارے پاس ان دونوں شخصیات کا کوئی متبادل نہ تھا۔ مسلم لیگ کے پاس ایسے افراد ہی نہیں تھے جن پرعلم و فکر کی تہمت دھری جا سکے۔
قائد اعظم کے بعد سیاست بازیچہ اطفال بن گئی اور اقبال کے بعد مسلم لیگ میں کوئی ایسا نہ تھا جو فکری رہنمائی کرتا۔
چنانچہ پاکستان نہ حقیقی معنوں میں ’اسلامی‘ بن سکا نہ ہی ’جمہوریہ‘ بن سکا۔ تجربات ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم غلطی ہائے مضامین بن کر رہ گئے۔
جس مسلم لیگ نے قائد اعظم کی سیاسی وراثت کو سنبھالنا تھا اس میں یہ استعداد ہی نہیں تھی اور اس فکری کم مائیگی کے مظاہر بہت تکلیف دہ ہیں۔ اسی طرح جس پارلیمان نے اقبال کی فکر کے مطابق اجتہاد کرنا تھا وہ بے چاری یہاں اپنے وجود کے تحفظ میں بھی ناکام رہی۔
پارلیمان کی مبلغ اہلیت یہ رہی کہ ہم آج تک اپنا قانون نہیں بنا سکے اور ہمارا فوجداری اور دیوانی قانون آج بھی وہی ہے جو برطانیہ نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد محکوم ملک میں نافذ کیا تھا۔
یہ قانون شہریوں کے لیے نہ تھا۔ یہ رعایا کے لیے تھا۔ ہم آج بھی اس قانون سے ہانکے جا رہے ہیں جو نہ یہاں کے لوگوں نے بنایا، نہ ان سے مشاورت کی گئی، نہ ان کی زبان میں لکھا گیا۔
برطانیہ کے چند لوگوں نے بیٹھ کر اسے بنایا اور ہم نے آج تک اسی کو سینے سے لگا رکھا ہے۔
آج تعبیر دین کا مسئلہ درپیش ہو تو صدر پاکستان جامعہ الازہر کو خط لکھ کر رہنمائی کے طالب ہوتے ہیں اور پارلیمان یا تعبیر دین کے لیے اس کے بنائے گئے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں سے رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
قائد اعظم کی قیادت میں جمہوری انداز سے دستور ساز اسمبلی نے کام شروع کیا اور برطانوی ’انڈین سول سروس‘ کی باقیات نے چند ہی سال بعد کتابیں لکھ لکھ کر قوم کی رہنمائی کرنا شروع کر دی کہ پاکستان کے لیے جمہوریت سازگار ہی نہیں ہے کہ یہاں تو گرمی ہوتی ہے اور جمہوریت کا پودا صرف سرد ممالک میں نمو پا سکتا ہے۔
ایوب خان کے دور میں تو خود قائد اعظم کی بہن کی حب الوطنی پر سوال اٹھا دیے گئے۔ جو قائد کے رفقا تھے ایبڈو لگا کر گھر بھیج دیے گئے۔
غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ آج پچھتر سال بھی یہاں بحثیں ہو رہی ہیں کہ ہمارے لیے پارلیمانی نظام ٹھیک رہے گا یا صدارتی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے ہاں جو اسلامائزیشن ہوئی ہے اس میں پارلیمان کا فکری اور شعوری کردار کیا ہے؟ آخر اجتہاد اسی کی ذمہ داری تھی۔ اسلامائزیشن یہاں محض سیاسی اور تزویراتی ضروریات کے تحت ہوئی۔
اس کا مقصد ہر گز یہ نہ تھا کہ اجتماعیت کو شریعت کے تابع لایا جائے۔ اس کے مقاصد کچھ اور تھے۔ چنانچہ عالم یہ ہے داخلی سطح پر بھی سماج گھائل ہوا پڑا ہے اور بین الاقوامی برادری نے بھی ہمیں کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے۔
ان تضادات کو نبھاتے نبھاتے آج ہمارا پاسپورٹ دنیا کا چوتھا نامعتبر ترین پاسپورٹ بن چکا ہے۔
الجھنیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ عملی بھی اور فکری بھی۔ ہم آج تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ہم ایک ’نیشن سٹیٹ‘ ہیں یا ’اسلامی ریاست‘؟ نہ ہی ہم ان دونوں تصورات میں کوئی توازن لا سکے کہ قائد اعظم اور اقبال کی فکر کے مطابق ایک جدید اسلامی جمہوری ریاست بنا پائے جو مروجہ معنوں میں نیشن سٹیٹ بھی ہو اور نظری طور پر اسلامی ریاست بھی ہو۔
معیشت سے لے کر معاشرت تک اور مذہب سے لے کر سیاست تک، ہمارے تجربات ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔
سوال اب یہ ہے کہ ہم نے مزید اسے ’تجربہ گاہ‘ بنائے رکھنا ہے یا 75 سال کے تجربات کی روشنی میں اب ہمیں کوئی واضح لائحہ عمل تیار کرنا ہے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔