یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
پاکستان بنے 75 سال گزر گئے۔ 1947 سے لے کر 2022 تک آتے آتے پرانی صدی نئی کروٹ بدل چکی اور اب تو اس کی بھی دو دہائیاں گزر گئیں جبکہ تیسری دہائی کا دوسرا سال آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکا۔
پون صدی کے دوران بہت کچھ بدل گیا، کچھ تھوڑا کچھ زیادہ اور کچھ تو مکمل تبدیل ہو گیا۔ پھر بھی بہت کچھ ایسا ہے جو نہیں بدلا اور ایسا بھی جو بالکل نہیں بدلا۔ اب صاحب، بدلنے کی تعریف بھی عجب ہے کہ بدلنے کے بعد کچھ بہتر ہوا کہ بگڑ گیا۔
لیکن یہاں ہمیں انفرادی نہیں بلکہ خبر کے سفر کا جائزہ قومی نظر سے لینا ہو گا۔ اگرچہ ان 75 برسوں کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا بلکہ بہہ بہہ کر خشک بھی ہو گیا اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہمارے پاؤں کے نیچے کی مٹی دلدل میں تبدیل ہوتی گئی۔
75 سال پہلے جو نسل اپنے سرمئی خوابوں کی گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے آبلہ پا سفر کرتی رنگین تعبیریں ڈھونڈنے چلی تھی، وہ ہمارے ماں باپ کی نسل تھی جو اس فیض احمد فیض کی ساتھی تھی، جس نے خونِ دل سے ہجرت کی بے رنگ تعبیروں کا قصہ لکھا تھا۔
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
تاروں کی آخری منزل جہاں ختم ہوتی ہے، وہاں سورج کی کرنوں کی پہلی منزل شروع ہو جاتی ہے، دن نکل آتا ہے اور روشنی پھیل جاتی ہے۔ پاکستانیوں کے لیے اور کہیں روشنی پھیلی ہو یا نہیں لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جہاں اتنی چکا چوند روشنی ہوئی کہ آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ شعبہ ہے میڈیا۔
یہ اصطلاح بھی اپنے معنی میں بہت وسعت رکھتی ہے جس کا مکمل احاطہ یہاں ممکن نہیں، لہٰذا ہم اپنی بات محض نیوز چینلز تک محدود رکھیں گے کہ ان کی بدولت جس قدر پاکستانی عوام کے ذہنوں کو بدلنے میں مدد ملی شاید اور کسی مستند شعبے میں کم ہی ملی ہو۔ یہاں قصداً سوشل میڈیا کو موضوع سے باہر رکھا ہے کہ وہ اپنے معنی اور اثرات میں الگ موضوع کی وسعت رکھتا ہے۔
بات تقسیمِ ہند سے چلی تو اس وقت نئی ریاست پاکستان میں ذرائع ابلاغ محدود تھے۔ ایک قومی اخبار اور ایک سرکاری ریڈیو سے شروع ہونے والے سفر کا اگلا پڑاؤ ایک سرکاری ٹیلی ویژن، ’پی ٹی وی‘ بنا جس نے پچھلی صدی کے اختتام تک اپنی اجارہ داری قائم رکھی جس میں استثنیٰ ایک نجی ٹی وی کو حاصل ہوا، جسے این ٹی ایم (نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران نجی ریڈیو کے شعبے میں بھی کام کا آغاز ہو چکا تھا اور ’یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ فلاں سے خبریں سنیے‘ کی معتبر آواز کی جگہ ’ایف ایم‘ کی جوان آوازوں کا تازہ جادو سر چڑھ کے بولنے لگا تھا۔
نئی صدی کے شروع میں نائن الیون کے فوری بعد جنرل پرویز مشرف نے نجی ٹی وی کے حوالے سے لائسنس جاری کرنا شروع کیے اور وہ پاکستانی عوام نہال ہو گئے جو 80 کی دہائی تک خاص طور پہ ضیا الحق کے سخت ترین مارشل لا کے سنسر زدہ ماحول میں بی بی سی کے پروگرام ’سیر بین‘ کا ہر رات بے چینی سے ٹرانسسٹر پہ کان لگائے انتظار کرتے تھے کہ مارک ٹیلی ہی کوئی صحیح بات سنائے تو سنائے ورنہ سرکار کے خبر نامے پہ تو یقین نہیں۔
اب اس حسنِ اتفاق کو کیا کہیے کہ پا بہ زنجیر نیوز کو آزادی بھی ملی تو ایک اور فوجی کے دور میں جب مشرف کی حکومت نے ایک ساتھ کئی نیوز چینلز کے لائسنس جاری کر دیے۔ ان میں زیادہ تر پہلے سے قائم اخبارات کے مالکان کو عطا ہوئے کہ انہیں خبریں چلانے کا تجربہ حاصل تھا۔
اب عوام نے سرکاری خبروں کے مسلسل جمود کے بعد تازہ نیوز دیکھنے کا خوشگوار تجربہ حاصل کرنا شروع کیا۔
پاکستان کے پہلے باقاعدہ نیوز چینل نے جب ایک لائیو پولیس مقابلہ دکھایا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے، لیکن وقت جس تیزی سے بدل رہا ہے اس میں یہ حیرت بھی اب پرانی ہو چکی۔
اب کوئی بڑی سے بڑی بات، واقعہ یا حادثہ حیران نہیں کرتا کہ ناظرین اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ اتنے عادی کہ ہر پل چوبیس گھنٹے درجنوں نیوز چینلز پر نت نئی بریکنگ نیوز کی کوئی ضرب بھی کاری نہیں پڑتی۔
راز و اسرار کا جادو ہے بکھرنے والا
واقعہ اب کوئی حیراں نہیں کرنے والا
پی ٹی وی سے شروع ہونے والا سفر درجن بھر بڑے نیوز چینلز تک پہنچ چکا ہے اور رات دن، کسی لمحے کوئی خبر کسی بھی طبقے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگاتی۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان نیوز چینلز کے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں نے عام لوگوں میں، جن میں کم پڑھے لکھے لوگ بلکہ ان پڑھ بھی شامل ہیں، سیاسی شعور جگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ویسے سیاسی خبر ناموں میں دلچسپی تو عوام الناس کی ہمیشہ سے رہی ہے۔ نیوز چینلز کے غلبے سے پہلے ایک عام مشاہدہ تھا کہ کوئی پڑھا لکھا شخص کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر اخبار سے اونچی آواز میں ہیڈ لائنز پڑھ رہا ہوتا تھا اور باقی لوگ سن رہے ہوتے تھے کہ اخبار خریدنا بھی ہر کسی کے بس میں نہ تھا۔
آج ہر وقت، ہر جگہ، ہر دکان پہ، ہر گھر میں نیوز کاسٹر نیوز پڑھتی ہیں یا پڑھتے ہیں اور چلتے پھرتے اپنے اپنے کام نمٹاتے ہوئے بھی ہر خبر سننے والوں کے کان میں پڑ رہی ہوتی ہے۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی خبریں فوراً سامنے آ جاتی ہیں اور ملزموں کی پہچان آسان ہونے کی وجہ سے ملزموں کا بچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہونے لگا ہے۔
لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، نت نئی خبروں کی یلغار میں بہت کم ایسے واقعات ہیں جو یاد رہ جاتے ہیں کیونکہ آج کی خبر، کل کی تاریخ تو بن ہی جاتی ہے لیکن تیزی سے بدلتے خبر نامے میں خبر کو تاریخ بنتے ایک دن درکار نہیں بلکہ محض اگلی بریکنگ نیوز تک کی مہلت چاہیے جو ملنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتی۔
اب خبر بس اس وقت تک اہم ہے جب تک اگلی اہم خبر نہیں آ جاتی اور وہ آج کل کی بھاگتی دوڑتی دنیا میں آنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتی۔ معلومات تک رسائی شہریوں کا حق ہوتا ہے لیکن انسانی نفسیات سے دلچسپی رکھنے والے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہر وقت کی خبریں جن میں زیادہ تر منفی ہوتی ہیں، ہیجان اور پریشانی میں اضافہ کرتی ہیں جس سے معاشرے میں بہ حیثیتِ مجموعی بے چینی پھیلتی ہے۔
کیا ہم بالکل خاموش رہ کر لب سی لینے یا پھر سب کچھ کہہ دینے کے درمیان سمجھوتہ کر سکیں تو بہتری کا امکان ہے؟ کیا اندھیرے میں رہنے اور چکا چوند روشنی کے بیچ کے منظر میں آنکھیں کہیں ٹھہر جائیں تو زیادہ صاف نظر آ سکتا ہے؟
کیا خبر کی دنیا میں اعتدال ممکن ہے؟