کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے
کہانی تو چلے گی اختتامی باب سے آگے
طوفان آ چکا کیونکہ ایک اور سیلاب آ چکا ہے۔ کہانی ہے سیلاب در سیلاب کے اندوہناک حالات و واقعات سے اَٹے پاکستان کی تاریخ کے اوراق کی۔
قیام پاکستان سے اب تک ہر دہائی میں سیلاب کے منظر دکھائی دیتے ہیں۔ یوں تو پاکستان کی تاریخ میں درجنوں ایسے سیلاب آچکے جب بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں، آبادیوں کی آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ چاہے وہ 1950 کا خوفناک سیلاب ہو جس میں 2200 سے زائد اموات ہوئیں، یا 2010 میں آنے والا اور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا گردانا جانے والا سیلاب جس میں بھی اموات کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے ۔
اس بار بھی وہی ہوا جو دہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ایک دہائی بعد بھی وہی کہانی دہرائی گئی ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار آنے والا سیلاب بھی انمٹ نقوش چھوڑے جا رہا ہے۔ حالیہ سیلاب میں اموات کی تعداد 950 کے قریب جا پہنچی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، اجڑنے والے گھر لاکھوں میں، جبکہ کروڑوں پاکستانی براہ راست متاثر ہوئے ہیں، جن میں لاکھوں کی تعداد نقل مکانی کرنے والوں میں شامل ہے۔
کسی شاعر نے کہا تھا؎
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ
فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے
پاکستان کا ہر صوبہ آج پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان سمیت پاکستان کا زیر انتظام کشمیر بھی بدترین بارشوں اور سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔
قدرتی آفات کا انکار نہیں، تیزی سے رونما ہوتی موسمیاتی تبدیلیاں بھی ایک خوفناک حقیقت ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہر بار مون سون میں پیشگی اطلاعات اور الرٹس کے باوجود کروڑوں عوام مصائب و آلام کا شکار بن جاتے ہیں یا بنا دیے جاتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر سیلاب آنے کے بعد ہونے والے ریلیف اینڈ ریسکیو آپریشنز، امدادی کیمپوں کا قیام، راشن کی تقسیم، شیلٹرز کی فراہمی سمیت ہلاک افراد کے لواحقین کی مالی مدد قابل تحسین اقدامات تو ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کا جو تخمینہ سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے لگایا جاتا ہے اگر اتنی ہی رقم اور فنڈز سیلاب آنے سے پہلے کے انتظامات پر خرچ کر دیے جائیں تو قباحت کیا ہے؟
دوسرا اہم نکتہ نئے ڈیمز کی تعمیر کا ہے کہ جس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں۔ نئے ڈیمز کی تعمیر کے ذریعے شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت میں ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
سیلاب سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے ملک میں نئے ڈیمز تعمیر کیے جائیں اور جدید مہارتوں کے استعمال سے بھی نقصانات کو کم سے کم سطح پر لایا جائے۔
اس قدرتی آفت کو سیاست سے دور رکھنے کی انتہائی کوشش کے باوجود ایک افسوس ناک امر پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتی ہوں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تاحال سیلاب متاثرین کے پاس نہیں پہنچ سکے۔ خیبرپختونخوا کے عوام ہوں یا پنجاب کے سیلاب زدگان سب کپتان کے منتظر ہیں۔
اس تمام تر قدرتی آفت کے دوران حکومت اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف انتہائی متحرک نظر آئے۔ انہوں نے نہ صرف سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے بلکہ عالمی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ ہنگامی اجلاس کیے، غیر ملکی سفرا کو اکٹھا کرکے انہیں سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر بریف کیا۔
ایسے میں حزبِ اختلاف کے لیڈرز کو بھی فرنٹ سے لیڈ کرنا چاہیے۔ عوام کو ان کے حال پر چھوڑنے کی بجائے ہر حال میں ان کا پرسان حال کرنا ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔