(نوٹ: اس تحریر کے مصنف سعد بن طفلہ العجمی کویت کے سابق وزیرِ اطلاعات ہیں۔ یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ عربیہ پر شائع ہوئی تھی)
14 گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد میں اپنے دوست کے ساتھ لاس اینجلس کے ہوائی اڈے پر پاسپورٹ پر مہر لگوانے کے لیے قطار میں کھڑا تھا۔ میرے پیچھے موجود ایک مسافر نے طویل انتظار اور سست رفتاری کی وجہ سے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ اس کی شکل اور اس کے لہجے سے لگتا تھا کہ وہ فرانسیسی ہے۔
جب مزید آدھا گھنٹہ گزر گیا اور قطار اسی سست رفتاری کا شکار رہی تو اس نے ہمارے پاس سے گزرنے والے ایک افسر سے دوبارہ بڑی شائستگی سے احتجاج کیا تو اس افسر نے نہایت درشت لہجے اور بلند آواز سے اسے دھمکایا، ’اگر تم خاموش نہ ہوئے تو جہاں سے آئے ہو، وہیں واپس بھیج دوں گا۔‘
احتجاج کرنے والا سیاہ فام نہیں تھا اور افسر گورا نہیں تھا۔
کچھ برس پہلے میرے پاس امریکہ کے وزیر خارجہ کے معاون آدم اوریلے آئے، میں نے ان سے امریکی ہوائی اڈوں پر مسافروں کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت کی تو ان کا جواب تھا، ’وہ تو میرے ساتھ بھی اسی طرح پیش آتے ہیں۔‘
میں امریکہ کو 40 برس سے جانتا ہوں۔ میری وہاں دوستیاں اور پڑھائی کی حسین یادیں ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا برس گزرا ہو کہ میں وہاں گھومنے پھرنے یا کسی علمی اور سیاسی کانفرنس میں شرکت کے لیے نہ گیا ہوں۔ ان برسوں کے دوران ہر بار وہ امریکہ مجھ سے دور سے دور تر ہوتا جاتا ہے جس امریکہ کو میں جانتا تھا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سیاسی منظرنامہ دوگروہوں میں بٹا ہوا ہے، جس کا عکس ہمیں میڈیا، مکالموں، سیاسی مباحثوں اور حتی کہ سماجی تعلقات تک میں دکھائی دیتا ہے۔
’ہم سیاست پر بات نہیں کرنا چاہتے، اس لیے کہ ہم کوئی بدمزگی نہیں چاہتے۔‘ یہ وہ جملہ ہے جو اکثر امریکیوں کی زبان پر رہتا ہے۔ اس سے اس مسئلے کی گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو کچھ دن پہلے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپے کے بعد مزید شدت اختیار کر گیا۔ ایف بی آئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر پر چھاپہ اس لیے مارا تھا کہ وہ ان سرکاری دستاویزات کو حاصل کر سکیں جو 2020 میں ٹرمپ وائٹ ہاؤس کو چھوڑتے ہوئے ساتھ لے آئے تھے۔
ٹرمپ کے حامیوں کا خیال ہے کہ یہ ٹرمپ کو دوسری بار صدارتی انتخاب سے دور رکھنے کی سازش ہے۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ چھاپہ قانون کے مطابق تھا اور کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ پر الزام اور ان کا عدالتی ٹرائل ایک خونریز تصادم کا پیش خیمہ ہے، اور وہ اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ شدت پسند دائیں بازو نے ایف بی آئی کو دھمکیاں دی ہیں اور لوگوں کو ان کے قتل پر ابھارا ہے۔
جس قدر بھی کوشش کر لی جائے یہ دونوں گروہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ ایک گروہ روایتی دائیں بازو اور سرمایہ داریت کا حامی ہے، جب کہ بایاں بازو لبرل اور اشتراکیت کے قریب ہے۔ ان دونوں کے مابین بیسیوں مسائل پر اختلاف ہے۔ ایک تجزیہ کار کے طور پر مجھے تو ان دونوں گروہوں میں کوئی ایسی مشترک بات نظر نہیں آتی جس پر یہ دونوں مل بیٹھیں۔
مثال کے طور پر اسقاطِ حمل، اسلحہ رکھنے کا حق اور ہم جنس پرستوں کی شادی (یہ صرف چند مثالیں ہیں) دونوں گروہوں کے مابین سرخ لکیریں ہیں۔ ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے کہ دیگر ممالک کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی ان گروہوں کے درمیان اختلافات کا باعث بنی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی کی نسبت گروہی اختلافات اس وقت اپنے پورے عروج پر ہیں اور پولیس کا تشدد سمارٹ فون کے کیمروں کے ذریعے سے کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ اسی ہفتے امریکی ریاست آرکنسا سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں دکھائی دیتا ہے کہ تین پولیس والے ایک آدمی کو نہایت سخت دلی کے ساتھ لاتیں اور گھونسے مار رہے ہیں جو زمین پر بلا حس و حرکت لیٹا ہوا ہے۔
پولیس والے اور ملزم سب گورے ہیں۔ اس ملزم کے ساتھ بدسلوکی اور اس کے انسانی حقوق سلب کیے جانے پر اس طرح احتجاج نہیں ہوا جیسے کہ ریاست فلوریڈا کی ایک ویڈیو وائرل ہونے پر ہوا۔ اس ویڈیو میں دکھائی دیتا ہے کہ ایک پولیس والا ایک کالی حاملہ عورت پر چیخ اور چلا رہا ہے، اس عورت کے ساتھ اس کے تین بچے بھی ہیں، وہ اس کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر پیچھے سے ہتھکڑی لگا رہا ہے۔
لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کے واقعات ہر آتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں کی اکثریت میں نئی قسم کے فرہود (1941 میں بغداد میں یہودیوں کے قتل عام اور لوٹ مار کا واقعہ) کا فیشن بڑھ رہا ہے، جس کے زیر اثر وہ دن دیہاڑے سٹوروں میں لوٹ مار کر رہے ہیں۔ امریکی جیلوں میں اس وقت لگ بھگ 20 لاکھ کے قیدی ہیں جو پوری دنیا کہ قیدیوں کا پانچواں حصہ ہیں۔
چین جیسے کمیونسٹ ملک میں 15 لاکھ کے قریب قیدی ہیں جبکہ صورت حال یہ ہے کہ چین کی آبادی امریکی سے چار گنا زیادہ ہے۔ امریکی قیدیوں میں سے 40 فی صد کالے ہیں جبکہ امریکہ میں ان کی کل آبادی 14 فی صد سے زیادہ نہیں ہے۔
میں اب تک اس امریکہ کو اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہوں جسے میں نے اعلیٰ تعلیم کے دوران دیکھا تھا۔ میری نسل امریکہ کے اس عظیم کردار کو کبھی نہیں بھول سکتی جو اس نے 1990 میں عراق کے کویت پر غاصبانہ قبضے کے دوران ادا کیا۔
میرا خیال ہے کہ امریکہ اپنی فطرت، آب وہوا اور جغرافیے کے اعتبار سے دنیا کا خوب صورت ترین ملک ہے۔ اس ملک میں گاڑی کے دوران سیاحت سے مجھے جو لطف وانبساط حاصل ہوا، ایسا لطف زندگی میں کبھی نہیں آیا۔
لیکن میرا خیال جس امریکہ سے میں اپنی بھری جوانی میں آشنا ہوا تھا، وہ اس وقت کہیں موجود نہیں ہے اور اسے میں مدتوں پہلے چھوڑ آیا تھا۔
پھر میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، شاید امریکہ نہیں بدلا، امریکہ تو وہی امریکہ ہے، شاید میں ہی بوڑھا ہو گیا ہوں اور میرا چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ بدل گیا ہے۔