پی ٹی آئی احتجاج کے دوران انڈپینڈنٹ کی نامہ نگار نے کیا دیکھا؟

یہ مارچ ماضی میں کیے گئے احتجاج یا دھرنوں سے مختلف اور اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اس کی قیادت پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں۔

26 نومبر 2024 کو پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی قافلے کی قیادت بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کر رہے ہیں جنہوں نے کارکنان کو ڈی چوک پر دھرنا دینے کی ہدایت دی ہے (پی ٹی آئی بلو سکائی)

وفاقی حکومت کے تمام دعوؤں اور رکاوٹوں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا قافلہ منگل کو اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا اور سری نگر ہائی وے سے ہوتے ہوئے اپنی منزل ڈی چوک پہنچ گیا۔

یہ مارچ ماضی میں کیے گئے احتجاج یا دھرنوں سے مختلف اور اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اس کی قیادت پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں۔

انڈپینڈںٹ اردو کے لیے کوریج کرنے کی غرض سے سیکٹر جی الیون کے قریب پہنچی تو منظر غیر معمولی نظر آیا۔ جہاں عام حالات میں سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم نظر آتا تھا، وہاں وہی سڑکیں آج خالی لیکن آنسو گیس شیلنگ کے دھویں سے بھری ہوئی تھیں۔

پولیس اہلکار تو نظر نہیں آئے تاہم مظاہرین یہ کہتے ضرور سنائی دیے کہ ’اسلام آباد پہنچنے سے پہلے پنجاب پولیس نے ہمیں بہت مارا لیکن یہاں آ کر ہم نے پولیس کو بھگا دیا۔‘

اس دوران سری نگر ہائی وے پر چند اعلانات سنائی دیے جس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کہہ رہے تھے کہ ’رکاوٹیں ہٹاتے چلو اور آگے بڑھو۔‘

مظاہرین کو اپنی شناخت کروانے اور ادارے کا نام و تفصیل بتانے کے بعد انہوں نے ہم سے بات شروع کی۔ کچھ مظاہرین اکٹھے کیے گئے شیل ہمیں دکھاتے رہے تو کچھ یہ بتاتے رہے کہ کیسے ان کے ساتھیوں جو ’محض احتجاج کی غرض سے آئے تھے، کو مارا گیا۔‘

قافلے میں موجود خیبر پختونخوا کے علاقے کرک سے آئے ایک حامی نے بتایا کہ انہیں ’علی امین گنڈاپور پر کوئی اعتماد نہیں، وہ تو راستے سے ہی کہیں نکلنے کی تیاری کر رہے تھے، ہم نے انہیں روکا۔ بشریٰ بی بی نہ ہوتیں تو ہم ڈی چوک نہ پہنچ پاتے۔ گنڈاپور کے مقابلے میں تو شاہد خٹک دلیر نکلے۔‘

کارکنان سے بات کرتے ہوئے دو گاڑیوں پر نظر پڑی جو ساتھ ساتھ کھڑی ہوئیں تھیں، ان کی ڈگی کھلی ہوئی تھی جس میں بستر اور تکیے پڑے نظر آئے۔

قافلے نے چونکہ یہاں پڑاؤ ڈال دیا تھا تو ہم ڈی چوک کی جانب روانہ ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جناح ایوینیو پر پہنچے تو یہاں آنسو گیس شیلنگ جاری تھی، ہم نے ابھی ریکارڈنگ شروع ہی کی تھی کہ پولیس و رینجرز اہلکاروں نے ہمیں وہاں سے ہٹنے کا کہا۔

ہٹنے میں چند سیکنڈز لگے تو ان اہلکاروں نے ساتھی صحافی پر چیختے ہوئے کہا کہ ’آپ یہاں جلدی سے نکل جائیں۔‘

ہم صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ فائرنگ کی آواز کانوں میں پڑی۔

فائرنگ سنتے ہے ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ ’اس وجہ سے کہہ رہے تھے کہ پیچھے ہٹ جائیں، دونوں اطراف سے فائرنگ کی جا رہی ہے۔‘

یہاں سے ہٹے تو قدرے محفوظ جگہ ڈی چوک کا رخ کیا کیونکہ یہ صورت حال بظاہر غیر یقینی دکھائی دی۔ ابھی ہم ڈی چوک کے بیچ میں پہنچے بھی نہیں تھے کہ آرمی کے اہلکاروں نے میرے ساتھی صحافی کا گھیراؤ کر لیا اور کہنے لگے کہ ’کیمرا ہمیں دیں۔‘

یہ سن کر ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔

اس دوران میں نے انہیں کہا کہ ’کیا یہاں ریکارڈنگ منع ہے؟ کیا یہاں رپورٹنگ کی اجازت نہیں؟ اور جب ہم نے ابھی کچھ ریکارڈ کیا ہی نہیں تو کیمرا کیوں دیں؟‘

یہ سن کر کہا کہ ’مواد کو ضائع کریں۔‘

میں نے جواب دیا کہ ’مواد ضائع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم نے ایسا کچھ قابل اعتراض ریکارڈ نہیں کیا جسے ضائع کرنا پڑے بلکہ اس جگہ پر کچھ ریکارڈ کیا ہی نہیں۔‘ اس کے بعد ہمیں مواد ضائع کیے بغیر جانے دیا گیا۔

اس دوران ہم نے نوٹ کیا کہ ڈی چوک پر ایک بھی صحافتی ادارے سے منسلک صحافی نظر نہیں آئے اور نہ ہی کوئی ڈی ایس این جی۔

یہاں سے نکلے تو کچھ دیر بعد مظاہرین چائنہ چوک، جہاں ہم پہلے موجود تھے، پر نصب رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ہوئے ڈی چوک پہنچ گئے۔

چند منٹ بعد سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مسلسل 10 منٹ اعلان کیا گیا کہ ’احتجاج کسی بھی شہری کا حق ہے لیکن قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جا سکتا۔‘

اس اعلان کے 10 منٹ بعد ہی سکیورٹی اہلکار جو مظاہرین کے ڈی چوک پہنچنے سے قبل کنٹینر پر تعینات تھے، واپس آ گئے اور ان کی جانب سے فائرنگ شروع کر دی گئی اور ساتھ ہی شیلنگ بھی جاری رہی۔

یہ دیکھتے ہوئے ہم نے مارگلہ روڈ کا رخ کیا۔

اس کے پیش نظر ہم ڈی چوک کے اطراف میں واقع رہائشی گلیوں میں چلے گئے۔ فائرنگ کی آواز بند ہونے پر دوبارہ ڈی چوک کا رخ کیا۔

ڈی چوک پہنچنے پر منظر تھوڑا مختلف پایا۔ جہاں ایک جانب سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے لائے گئے مخصوص ٹینٹ کو آگ لگائی ہوئی تھی تو دوسری جانب املاک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آئیں۔

ہم ٹینٹ کے نزدیک کھڑے ہو کر ریکارڈنگ کر رہے تھے کہ کچھ افراد نے ساتھ صحافی کو دھکے دینا شروع کر دیے۔ میں یہی بات اپنے مائیک میں بتا رہی تھی کہ دو افراد میری طرف لپکے اور انہوں نے مجھے دھکے دینا شروع کر دیے۔

ساتھی صحافی اور میں نے مظاہرین سے پوچھا کہ ’ہم نے ایسا کیا کیا کہ انہوں نے ہمیں روکا اور دھکے دینا شروع کر دیے۔ جواب دینے کے بجائے دیکھتے ہی دیکھتے یہ دو افراد ایک ہجوم کی شکل اختیار کر گئے اور ان میں سے کسی نے مجھے ٹھڈے مارنا شروع کر دیے۔ اس دوران مجھے کوئی چیز ٹانگ پر لگی جس سے ایک دم شدید درد شروع ہو گئی۔

اس صورت حال میں فورا پیچھے ہٹی تو دیکھا کہ ایک فرد کے پاس ڈنڈنے پر کچھ کیل نصب تھے جس سے شاید مجھے اس فرد نے مارا ہو گا۔

کنفیوژن میں مزید پیچھے ہٹ گئے لیکن سوال یہی کرتے رہے کہ ’اس بد سلوکی کی کیا وجہ تھی؟‘ ایک فرد نے جواب دیا کہ ’ان لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ لیکن صحافیوں کو پازیٹو رپورٹنگ کرنی چاہیے۔‘

اس کے بعد مظاہرین نے ہمیں ڈی چوک سے نکال دیا اور ہم سیکٹر ایف سکس کی جانب چلے گئے۔

وہاں سے ہٹنے اور مارگلہ روڈ کی جانب پیدل چل رہے تھے تو کچھ دیر بعد پی ٹی آئی کے رہنما یاور بخاری ہمارے پاس آئے اور کہا کہ ’مجھے پتہ چلا کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا ہوا۔ میں معذرت خواہ ہوں، یہ ان پڑھ افراد ہیں انہیں کچھ معلوم نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست