اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کو نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں عدالت کو وفاقی وزیر احسن اقبال کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو کیس میں کرپشن ثابت کرنے میں ناکام ہوا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال پر حکومتی فنڈز کے غلط استعمال اور نارووال میں بننے والے سپورٹس سٹی کمپلیکس میں بطور وفاقی وزیر برائے پلاننگ کرپشن کے الزامات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے نیب کے تفتیشی افسر سے سوال پوچھا کہ اس میں کرپشن کہاں ہوئی اور آپ کو کیس کب ملا ہے۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ’2018 میں مجھے یہ کیس ملا تھا اور 2019 میں احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا۔‘
نیب حکام نے پراسیکوٹر نہ ہونے کی وجہ سے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی جو عدالت نے مسترد کر دی۔
چیف جسٹس نے نیب تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک نامعلوم اخبار سے چیئرمین نے اٹھا کر کارروائی شروع کر دی۔
’آپ نے بغیر معلوم کیے کہ سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) ہوتی کیا ہے ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ جس سکریٹری کو آپ نے وعدہ معاف گواہ بنایا اس کا بیان دیکھا ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پبلک کا پراجیکٹ روک دیا اس کے اخراجات میں اضافے کا سبب پھر کون بنا۔
نیب حکام نے عدالت کے سوالات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے پراجیکٹ کو نہیں روکا تھا۔ ’ہم اس کیس کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت دیکھ رہے ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ترمیمی آرڈیننس کا تو اس میں تعلق ہی نہیں۔ ’آپ کا کام کرپشن کو دیکھنا تھا آپ کرپشن کو چھوڑ کر اور کاموں میں لگ گئے۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ تھا۔ وہاں سے یہ منصوبہ بین الصوبائی رابطہ وزارت کو دے دیا گیا۔
چیف جسٹس استفسار کیا کہ کیا احسن اقبال بین الصوبائی رابطہ کے وزیر تھے تو نیب پراسیکیواٹر نے جواب دیا کہ احسن اقبال کے وزیر منصوبہ بندی تھے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تو پھر احسن اقبال کے پاس کون سا اختیار تھا جس کا غلط استعمال ہوا۔
چیف جسٹس نے نیب حکام کو مزید کہا: ’یہ آپ کا کام نہیں کس منصوبے سے متعلق پالیسی کیا ہو۔ نارروال چھوٹا شہر ہے یا بڑا وہاں کون سا منصوبہ بننا ہے یہ دیکھنا آپ کا کام نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ نقصان کا کہتے ہیں تو آپ نے یہ پراجیکٹ روکا اور نقصان پہنچایا۔ ’اگر نقصان کا ہی مسئلہ تھا تو پھر اپنے خلاف کیس کرتے۔‘
چیف جسٹس نے مزید سوالات کیے کہ نامعلوم اخبار کی خبر پر ریفرنس بناتے ہوئے کیا چیئرمین نیب نے یہ حقائق دیکھے تھے کہ یہ درست ہیں یا نہیں؟ انہوں نے پوچھا ایک پبلک ویلفئیر پراجیکٹ سے متعلقہ کرپشن کا کیس کس بنیاد پر شروع کیا اور سی ڈی ڈبلیو پی میں اگر 30 لوگ تھے تو کیا سب نے کرپشن کی ہے؟
چیف جسٹس نے نیب تفتیشی افسر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا: ’نہ آپ کو سی ڈی ڈبلیو پی کا پتہ ہے نہ آپ کو کچھ پتہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘
چیف جسٹس نے مزید کہا: ’ایک قابل افسر احد چیمہ بری ہو گیا۔ آپ نے تین سال اس کو جیل میں ڈالے رکھا۔ یہ جو اتنی بدنامی آپ کراتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا: ’آج کل بھی بہت سارے پراجیکٹس چل رہے ہیں تو اگر نیب کے تفتیشی افسراس پر اعتراض کریں گے۔ نیب نے اپنے اختیار کے مطابق چلنا ہے۔ کیا اب نیب نے بتانا ہے کہ کون سا پراجیکٹ کہاں بنے گا؟‘
عدالتی سوالات پر تسلی بخش جواب نہ ملنے پر چیف جسٹس نے نیب تفتیشی افسر سے کہا: ’تفتیشی صاحب آپ کو بہت زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ آپ لوگوں کی ساکھ کے ساتھ اس طرح کھیلتے ہیں۔ آپ سے کوئی 15 بار پوچھ چکے ہیں کرپشن کا بتائیں۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ غلط کیس بناتے ہیں تو پھر جب یہ غلط کیس قرار پا جاتے ہیں تو اس کا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔
احسن اقبال پر کیس
ناروال سپورٹس سٹی کمپلیکس کے معاملے میں اختیارات سے تجاوز کرنے کا کیس جولائی 2019 میں پہلی دفعہ سامنے آیا تھا۔
احسن اقبال کی اس معاملے میں 23 دسمبر 2019 کو گرفتاری ہوئی تھی جبکہ 25 فروری 2020 کو ضمانت پر رہائی ہوئی تھی۔ 18 نومبر 2020 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر ہوا تھا۔
احتساب عدالت نے 23 فروری 2022 کو احسن اقبال کی بریت کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔