پاکستان کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری وقت پر، میرٹ اور قانون کے مطابق کی جائے گی۔
عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹریو میں احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ ’سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے اور (حکومتی اداروں کے درمیان) دراڑیں پیدا کرنے کی مبینہ کوششیں انتہائی افسوس ناک اور ملک مخالف ہیں۔‘
پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 28 نومبر 2022 کو اپنی مدت ملازمت پوری کریں گے۔
جنرل باجوہ نومبر 2016 میں آرمی چیف بنے اور انہیں 2019 میں عمران خان کے دور حکومت میں تین سال کی توسیع دی گئی تھی۔
اپریل میں عدم اعتماد کے ووٹ سے اقتدار سے بے دخل کیے جانے والے عمران خان نے رواں ماہ ایک ریلی سے خطاب کے دوران الزام لگایا تھا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی ملک میں انتخابات میں تاخیر کر رہے ہیں کیوں کہ وہ اپنی مرضی کے آرمی چیف کی تقرری کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے کرپشن پر پوچھ گچھ نہیں کریں گے۔‘
پاکستان فوج نے سابق وزیراعظم کے اس بیان کو ’غیر ضروری‘ قرار دیتے ہوئے اسے ’فوج کی سینیئر قیادت کو بدنام کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش‘ کہا تھا۔
احسن اقبال نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس (آرمی چیف کی تقرری) کے لیے آئین میں ایک طریقہ کار موجود ہے۔ جب وقت آئے گا تو معمول اور قانون کے مطابق اور میرٹ پر نئی تقریری کی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا: ’سب کو (تقرری کے) طریقہ کار پر بات کرنی چاہیے نہ کہ فوج میں محب وطن جرنیل اور غیر محب وطن جرنیل کو بنیاد بنا کر تقسیم کی کوشش کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں یہ شرم کی بات ہے۔‘
اپنی تقریر میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ’شہباز شریف اور ان کے اتحادی اپنا آدمی (آرمی چیف) چاہتے ہیں کیوں کہ انہوں نے پیسہ چوری کیا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر ایک مضبوط، محب وطن آرمی چیف مقرر کیا گیا تو وہ ان سے پوچھ گچھ کریں گے۔‘
احسن اقبال نے کہا کہ ’پاکستان کی فوج پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بہت اہم ادارہ ہے اور یہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ اسے سیاست سے بالاتر رہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے فوج کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی اور اب آرمی چیف کی تقرری پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک اور انتہائی ملک مخالف سوچ ہے۔‘
سیلابی صورت حال اور امددادی کارروائی
رواں مون سون میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے احسن اقبال، جو نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن حتمی اعداد و شمار مکمل ہونے کے بعد واضح ہو جائیں گے۔
نقصان کا یہ جائزہ اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غیرمعمولی سیلاب سے پاکستان میں اب تک 15 سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور جون کے وسط سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے جس سے ملک بھر میں ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا: ’انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور لوگوں کے گھروں تعمیر نو کے لیے دو سے تین سال کی کوششیں درکار ہوں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ایک ڈونر کانفرنس کی حمایت کرے گا تاکہ پاکستان کو بحالی اور تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو متحرک کرنے میں مدد ملے۔
گذشتہ ماہ جاری کردہ 16 کروڑ ڈالر کی اقوام متحدہ کی ہنگامی امداد کی اپیل پر دنیا کے ردعمل کے بارے میں پوچھے جانے پر احسن اقبال نے کہا کہ اس اپیل کو بین الاقوامی برادری نے تسلیم کر لیا ہے اور امدادی اور امدادی کارروائیوں کے لیے دوست ممالک کی طرف سے مدد آ رہی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ’فنڈز کا استعمال نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے انتہائی شفاف طریقے سے کیا جاتا ہے اور ہم نے ایک ڈیش بورڈ بنایا ہے جس پر ہم روزانہ کی بنیاد پر پوسٹ کر رہے ہیں کہ کتنا ریلیف اکٹھا کیا جا رہا ہے اور کہاں کہاں تقسیم کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ایک معروف بین الاقوامی فرم کو تمام فنڈز کا آڈٹ کرنا چاہیے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستان سیلاب کے پیش نظر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے درخواست کرے گا کہ وہ 2019 میں دستخط کیے گئے قرضہ پروگرام کے لیے اپنی شرائط پر نظر ثانی کرے؟ اس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت اس بارے میں غور نہیں کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم فی الوقت عالمی برادری کو ایسا کوئی پیغام دینے کا ارادہ نہیں رکھتے کہ پاکستان کو مالیاتی ادائیگی کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔
سی پیک کے پرانے ماڈل کی طرف واپسی
احسن اقبال نے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور اتھارٹی کو ختم کرنے کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں بنائی گئی یہ اتھارٹی ایک ’بے کار ادارہ‘ ہے جس نے سرکاری محکموں اور وزارتوں میں تنازع پیدا کر دیا تھا۔
ان کے بقول: ’لہذا سی پیک اتھارٹی کو تبدیل کر کے منصوبوں کے نفاذ اور عمل درآمد کو آسان کر رہے ہیں اور ہم سی پیک کے پرانے ماڈل کی طرف واپس جا رہے ہیں۔‘