خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں اتوار کی صبح مبینہ دہشت گردی کے دو واقعات میں چار پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک جبکہ 22 زخمی ہوگئے۔
ضلعی پولیس آفیسر سلیم ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ صبح تقریباً آٹھ بجے موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے کوٹلہ سیداں کے علاقے میں پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ کی، جس کے نیتجے میں دو پولیس اہکار ہلاک ہو گئے۔
انھوں نے بتایا: ’جب ان پولیس اہلکاروں کی لاشوں کو سول ہسپتال منتقل کیا گیا تو ہسپتال کے ٹراما روم میں ایک مبینہ خاتون خود کش حملہ آور نے، جس کی عمر 20 سال کے لگ بھگ ہوگی، خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔‘
ہسپتال میں دھماکے سے مزید دو پولیس اہلکار اور چار شہری ہلاک ہوئے۔
سلیم ریاض کے مطابق: ’مبینہ خود کش حملہ آور کے بال لمبے تھے اور حلیے سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ خودکش حملہ آور خاتون تھی۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’خود کش حملہ آور‘ کے اعضا فارنسک جانچ کے لیے بھیج دیے گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بم ھماکے کے 22 زخمیوں کو سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جبکہ دھماکے میں تقریباً سات کلو بارودی مواد کا استعمال کیا گیا۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلعی ایمرجنسی افسر نے ڈی آئی خان میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ضلع میں موجود ریسکیو کے آٹھ سٹیشنز کی ایمبولینسز اور سٹاف کو ہسپتال طلب کیا ہے۔
ضلع ڈی آئی خان اس سے پہلے بھی متعدد حملوں کا نشانہ بنا ہے۔ 2008 میں اسی ضلع کے سرکاری ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں دھماکے کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اُدھر، تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے آج دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن سرکاری حکام سے اس دعویٰ کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی۔
طالبان کے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ہسپتال میں خود کش حملہ کرنے والا ان کا مرد ساتھی تھا۔ اس دعوے کی روشنی میں خاتون بمبار کے ملوث ہونے پر ابہام ہے اور فرانزک جانچ کے بعد ہی حتمی صورتحال سامنے آئے گی۔