ہم کالم نگار بھی عجیب مخلوق ہیں، جس دن ہمیں لکھنے کے لیے کچھ نہیں سوجھتا اس دن ہم کالم میں اپنے ملک کی برائیاں گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ کالم بھی بن جاتا ہے اور داد بھی مل جاتی ہے۔
ایسے کالموں میں ایک بات نہایت شدو مد سے لکھی جاتی ہے کہ جیسا ہمارے ملک میں ہوتا ہے ویسا پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔
سچی بات ہے، مجھے اب اس جملے سے چڑ ہوگئی ہے۔ مانا کہ ہم میں ہزار برائیاں ہیں مگر اب ایسی بات بھی نہیں کہ اخلاقی پستی کا ہر طعنہ ہماری قوم کو ہی دیا جائے۔
دنیا کی ہر قوم میں برائیاں ہوتی ہیں مگر ہم کچھ زیادہ ہی جذباتی ہیں، پکوڑے کھانے سے لے کر آم چوسنے تک، ہر کام نہایت جذباتی انداز میں کرتے ہیں۔
کرکٹ میچ ایسے کھیلتے ہیں جیسے جنگ ہو رہی ہو اور بقول شخصے، جنگیں ہم نے ایسے لڑی ہیں جیسے میچ کھیل رہے ہوں۔
دیکھیں میں پھر اپنے ہی ملک کو جگتیں لگانے لگ گیا، شاید یہ بات ہم کالم نگاروں کی گھٹی میں پڑی ہے، اپنی قوم کے لتے لیے بغیر ہمیں چین ہی نہیں آتا۔
خاص طور سے جب ہم لوگ باہر کے کسی ملک کا دورہ کر کے لوٹتے ہیں تو نہ جانے کیوں اس ملک کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کردیتے ہیں، چاہے وہ ملک کینیا ہی کیوں نہ ہو اور اپنے ملک کے ’ظاہری حکمرانوں‘ کو گالیاں دینا تو ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔
ہم اپنے چپڑاسی کو مہینے کا 15 ہزار دے کر اس سے یورپ والے اخلاق کار کی توقع کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسا کام ہے جس کے عوض دلیری کا خطاب بھی ملتا ہے اور بے باک ہونے کا تمغہ بھی۔ چلتے چلتے اپنے ملک کی جمہوریت کو بھی ہم دو چار ٹھاپیں لگا دیتے ہیں اور ساتھ ایسا زہریلا تبرا کرتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے دنیا کی بد ترین جمہوریت ہمارے ہاں رائج ہے۔
حالاں کہ آج کل جمہوریت کی ماں برطانیہ کا جو حال ہے اس پر دنیا بھر میں چٹکلے بنائے جا رہے ہیں، جنہیں عرف عام میں ’میمز‘ کہا جاتا ہے۔ برطانیہ کے نامزد وزیراعظم کے والدین کا تعلق ہندوستان سے ہے، جس کی وجہ سے بھارت میں کافی ایکسائٹمنٹ پائی جاتی ہے حالاں کہ موصوف کا ہندوستان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا شہنشاہ معظم چارلس کا درہ آدم خیل سے!
ہم لوگ اب اپنی رسومات اور روایات پر نادم ہونے لگ گئے ہیں۔ ایک کھانے پر ہم چند دوست گفتگو کر رہے تھے کہ کس طرح ہم لوگ کھانے کا بل ادا کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ امریکہ میں یہ بات طے ہوتی ہے کہ سب اپنے اپنے کھانے کے پیسے ادا کریں گے۔
بندہ پوچھے کہ اگر ہماری ایسی روایت ہیں تو یہ قابل فخر ہے نہ کہ باعث شرمندگی۔ امان اللہ مرحوم اس بات کا بہت دلچسپ نقشہ کھینچا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں جس بندے نے کھانے کا بل دینا ہوتا ہے اسے سب سے پہلے پتہ چل جاتا ہے اور وہ خواہ مخواہ چڑ چڑا ہوجاتا ہے، کبھی بیرے پر چڑھ دوڑتا ہے کہ وہ میٹھے کا پوچھنے کیوں آگیا اور کبھی دوستوں کو ٹوکتا ہے کہ ’بھلا رات کے وقت رائتہ کون کھاتا ہے!‘
ان تمام باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری قوم میں کوئی خرابی نہیں یا ہم دنیا کی سب سے مہذب قوم ہیں، ایسا سوچنا بھی حماقت ہے، مگر جیسا میں نے کہا کہ اب یہ جملہ کہ ’ایسا پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوتا‘ مجھے زہر لگنے لگ گیا ہے۔
تھوڑی بہت دنیا میں نے بھی دیکھی ہے، ہر جگہ فراڈیے، چور، اچکے بھرے پڑے ہیں اور ان میں کسی قومیت کی کوئی تخصیص نہیں۔
ابھی دو ماہ پہلے جب ہم سپین میں تھے تو وہاں پتہ چلا کہ سب سے زیادہ چور مشرقی یورپ سے آتے ہیں اور وہ زیادہ تر ان ممالک کی پولیس اور فوج جیسے اداروں سے ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔
یہ لوگ یورپ کے امیر ممالک میں دو چار مہینے چوری کا سیزن لگاتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ ایک الزام ہم پر شدت پسندی کا بھی ہے، اس الزام میں کافی حد تک صداقت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ بالعموم شدت پسند نہیں۔
ہم تفریحات کو پسند کرنے والے کھلے ڈلے لوگ ہیں، انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں سرایت ضرور کرچکی ہے مگر اب بھی اگر ہمارے اصلی حکمران چاہیں تو اس سانپ کا سر کچل سکتے ہیں۔
ایک الزام ہم اپنی قوم پر کاہلی اور کام چوری کا بھی لگاتے ہیں، چلیے یہاں میں کچھ نہ کچھ آپ سے اتفاق کرلوں گا مگر یہ الزام لگاتے ہوئے ہم ایک بات بھول جاتے ہیں کہ جن اقوام سے ہم اپنا موازنہ کرتے ہیں ان کی فی گھنٹہ تنخواہ اور ہماری اجرت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم اپنے چپڑاسی کو مہینے کا 15 ہزار دے کر اس سے یورپ والے اخلاق کار کی توقع کرتے ہیں، یہ ایسا ہی جیسے آپ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لے کر امید رکھیں کہ آپ کو بزنس کلاس کی سروس مہیا کی جائے گی۔
پاکستان کا متوسط اور نچلا طبقہ جس طرح زندہ رہنے کی جدو جہد کرتا ہے، اس کے عوض انہیں تمغہ امتیاز ملنا چاہیے جبکہ ہم کالم نگار اٹھتے بیٹھتے اپنی قوم کو طعنے دیتے ہیں۔
ایک اور بات جس کا ڈھول ہم نہایت تواتر کے ساتھ اپنے کالموں میں پیٹتے ہیں کہ باہر کے ملک میں وزیراعظم اپنا کام خود کرتا ہے، اپنی چھتری خود اٹھاتا ہے، اپنے سامان کی خود حفاظت کرتا ہے لیکن ہم نے اس کام کے لیے نوکر رکھے ہوئے ہیں۔
یہ اعتراض بھی درست ہے مگر یورپ کے جو وزیراعظم اپنی چھتریاں اٹھائے پھرتے ہیں وہی وزیراعظم اسرائیل کی بربریت کے بھی حامی ہیں۔ جس اطمینان کے ساتھ یہ اپنا بریف کیس اٹھاتے ہیں اسی اطمینان کے ساتھ یہ بے گناہ شہریوں پر بمباری کا حکم بھی جاری کرتے ہیں۔
جس امریکہ کی تعریفیں کرتے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں، اس امریکہ سے زیادہ تباہی اور بربادی کسی دوسرے ملک نے نہیں مچائی۔ جس یورپ کے نظام انصاف کی دہائی دیتے ہوئے ہم ہلکان ہوئے جاتے ہیں وہ یورپ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر کان لپیٹ کے بیٹھا ہے، حالاں کہ یہ سیلاب اس موسمیاتی آلودگی کا نتیجہ ہے جس کا ذمہ دار یورپ اور امریکہ ہیں۔
ٹھیک ہے ہم میں ہزار خرابیاں ہیں، ٹریفک کے اشارے توڑتے ہیں، ٹائروں کو آگ لگاتے ہیں، مذہبی انتہا پسندی کو لگام نہیں ڈال سکے، سیاحت کی الف بے کا ہمیں نہیں پتہ، کام چور بھی ہیں، جذباتی بھی ہیں، مگر کم از کم دنیا کی تباہی میں ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، نہ ہم موسمیاتی آلودگی کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہم نے جنگوں میں لاکھوں کروڑوں بے گناہ لوگ مارے ہیں۔
لہذا آج کے بعد پلیز کوئی یہ نہ کہے کہ جیسا پاکستان میں ہوتا ہے، ویسا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ مائی فٹ!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔