یہ تحریر مصنف کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے
احمد ندیم قاسمی کا نام اردو ترقی پسند ادب کا نہایت معتبر حوالہ ہے۔
جب وہ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد گجرانوالہ کے نواحی علاقوں میں پہلوانوں کے اکھاڑے سے شروع ہونے والا اپنا افسانہ ’گنڈاسہ‘ لکھ رہے تھے تو وہ یقیناً اردو ادب کی تاریخ میں اہم اضافہ کر رہے تھے لیکن اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ یہ افسانہ آگے چل کر پاکستان کی فلمی صنعت پر بھی کتنے گہرے اثرات مرتب کرے گا!
1975 میں بننے والی ’وحشی جٹ‘ احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’گنڈاسہ‘ سے ماخوذ اور 1979 کی ’مولا جٹ‘ اسی فلم یعنی ’وحشی جٹ‘ سے وابستہ اور اب 42 سال کے بعد باکس آفس پہ دھوم مچانے والی ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ بھی انہی سے منسلک ہے۔
ویسے تو احمد ندیم قاسمی کے افسانے اور فلم ’مولا جٹ‘ کا تعلق بڑا دور پار کا ہے۔ قاسمی کے افسانے میں کشتی کے لیے مشہور گجرانوالہ کے نواحی علاقے کے ’مولا‘ نامی ایک نوجوان کو موضوع بنایا گیا ہے، جس کا باپ قتل ہو جاتا ہے۔ مولا آگ بگولہ ہو کر بدلہ لینے کی غرض سے نکل پڑتا ہے مگر راستے میں ایک دین دار شخص اسے نصیحت کرتا ہے کہ اسلام میں معاف کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
مولا اس کی بات سن کر باپ کے قاتل کا بدلہ لینے سے باز آ جاتا ہے، مگر اس کا خاندان اور خاص طور پر ماں اس پر دباؤ ڈالتی ہے کہ باپ کا بدلہ ضرور لے۔ ’گنڈاسہ‘ مولا کے ذہن میں چلنے والی اس کشمکش کا اظہار ہے۔
اس پر جو فلم بنی اس میں اس ذہنی کشمکش کو بالکل نظر انداز کر کے کہانی کو انتقام اور خون خرابے کی داستان بنا دیا گیا۔ پیار محبت، ناچ گانے، بلند آہنگ مکالمے، غرض پوری بارہ مصالحے کی چاٹ تھی، اس لیے فلم ایسی کامیاب ہوئی کہ اس نے پنجابی فلموں کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی اور اگلے دس برس تک یہ فلم بلا مبالغہ بیسیوں بار ری میک ہوتی رہی۔ مشہور ہے کہ سلطان راہی خون آلود کپڑے پہن کر ایک فلم کے سیٹ سے لباس تبدیل کیے بغیر ہی دوسری فلم کے سیٹ پر چلے جاتے تھے کہ اس کی بھی یہی کہانی ہوتی تھی۔
اب احمد ندیم قاسمی کے اسی افسانے کا نیا جنم لیجنڈ آف مولا جٹ کی شکل میں ہوا ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک پاکستانی فلم اور وہ بھی پنجابی زبان میں، شائقین کو نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی سینیما گھروں میں کھینچ لائے گی اور واہ واہ کرنے پر مجبور کر دے گی۔
اب تک سو کروڑ کا بزنس کرنے والی پہلی پاکستانی فلم ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ آج کے فلم شائقین خاص طور پر نئی نسل کی پسند کو نظر میں رکھتے ہوئے تمام لوازمات کے ساتھ بنائی گئی ہے اور ہدایت کار بلال لاشاری نے فلم کو تکنیکی اعتبار سے بھی جدیدیت کی تمام سہولیات سے آراستہ کیا ہے۔
انتہائی مقبول اور صفِ اوّل کے اداکاروں پر مشتمل یہ فلم بلاشبہ بے مثال کامیابیاں سمیٹ رہی ہے اور تخلیق کاروں کے لیے باعثِ فخر بھی ہے۔
’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ پرانی ’مولا جٹ‘ کا نہ تو ری میک ہے اور نہ ہی سیکوئنس یا تسلسل ہے۔ یہ بات بجا سہی لیکن پھر بھی اس میں بہت کچھ ’لیجنڈری‘ ہے۔
مرکزی کرداروں کے جھرمٹ یعنی مولا جٹ، اس کی محبوبہ مکھو جٹی، نُوری نت، اس کی بہن دارو، ان کا بھائی ماکھا نت، ان سب کے علاوہ جو چیز سکرین کی رونق اور لیجنڈری ہے وہ ہے پیاسا گنڈاسہ، جو وقتاً فوقتاً مظلوم کے انتقام کی آگ ظالم دشمن کے خون سے بجھاتا رہتا ہے۔
اب یہ تو ہے کہ فلم چاہے ریمبو ہو، گلیڈی ایٹر ہو، باہو بلی یا مولا جٹ، طاقتور کے ظلم کی انتہا اور پھر ون مین آرمی کے ہاتھوں ظالم کی تباہی، ہمیشہ سے کامیاب فلم کا فارمولا رہی ہے۔ یہ تباہی بندوق سے ہو، مضبوط بازؤں سے یا گنڈاسے سے، انجام ایک ہی ہے اور وہ ہے اختتام پہ بجتی تالیاں۔
ابھی بات ہو رہی ہے لیجنڈ آف مولا جٹ فلم کی جس کے کاسٹیوم، گیٹ اپ، سیٹ اور ماحول ایسا ہے کہ آپ اسے کسی خاص دور یا علاقے سے منسلک نہیں کر پاتے۔
اس سے بالی وڈ کے ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’سانوریا‘ یاد آئی جس کے ماحول سے بھی کسی خاص زمانے کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
لیکن لیجنڈ آف مولا جٹ میں کہیں کہیں یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کی مختلف مشہور سیریز سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جو ایسی معیوب بات بھی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مثال کے طور پر حمزہ عباسی کے گیٹ اپ سے گیم آف تھرونز کے ایک کیریکٹر Carl Dargo کا خیال آتا ہے۔ ویسے نوری نت کے کردار میں حمزہ عباسی نے اپنی دبنگ پرفارمنس سے جان ڈال دی بالکل ایسے ہی جیسے مصطفیٰ قریشی نے چار دہائیوں پہلے اس کردار کو غیر معمولی انداز سے نبھایا تھا۔
فلم کے مجموعی کاسٹیوم سے دیکھنے والے کا دھیان ترک ڈرامے ’ارطغرل‘ کے کرداروں کی طرف بھی جاتا ہے جو نیٹ فلکس پر Resurrection اور پاکستان میں ڈب ہو کر ارطغرل کے نام سے نہایت مقبول رہا ہے۔
کانوں میں نتیاں یا عرف عام میں بالیاں پہننے والے نت قبیلے کے حالات دیکھتے ہوئے گیم آف تھرونز کے قبیلے Dothraki clan کی جانب اگر آپ کا خیال چلا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ حالانکہ خود نت قبیلہ وسطی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے دو گاؤں نت کلاں اور نت خورد گجرانوالہ کے قریب آج بھی آباد ہیں۔
گئے زمانوں میں یہ نٹ یا بازی گر بھی کہلاتے تھے اور خانہ بدوش ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح پہلوانی کے دنگل اور خاص طور پر مولا اور نوری کی آخری لڑائی پنجاب کے کسی اکھاڑے کے بجائے رومن عہد کے گلیڈی ایٹرز والے ایمفی تھیٹر یا ’کولیسیم‘ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ صائمہ بلوچ کا رقصِ بسمل سے رقصِ مرگ تک کا سین، وسط ایشیائی ماحول کے منظر کدے میں فلمایا ہوا لگتا ہے لیکن سحر زدہ کر دیتا ہے۔
ماحول، گیٹ اپ اور لباس کے علاوہ سکرپٹ میں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں جس سے زمانے کا تعین کیا جا سکے۔
کوٹ مٹھن کے اجڑے دیار کے ذکر سے البتہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بات انیسویں صدی کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اصل میں یہ علاقہ جنوبی پنجاب میں اور سرائیکی زبان کا گڑھ ہے جبکہ فلم کی پنجابی زبان، وسطی پنجاب کی نمائندہ ہے۔
ہفت زبان بشمول سرائیکی کے نامور شاعر بابا غلام فرید کے حوالے سے مشہور کوٹ مٹھن یا مٹھن کوٹ ضلع راجن پور میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے آباد ہے اور اجڑ کے دوبارہ بسا ہے۔
یہ ساری باریکیاں ایک طرف اور لیجنڈ کا جادو ایک طرف! آخر کسی داستان کو نسل در نسل سننے اور کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود یقین کرنے کو ہی تو لیجنڈ کہتے ہیں۔
اس سے پہلے بات ہو رہی تھی پنجابی فیچر فلم کی تو اس کی کہانی کا تاریخی کینوس کچھ زیادہ وسیع نہیں۔
طاقت ور اور کمزور کے درمیان ظلم، نفرت اور انتقام کے بھڑکتے شعلے جس میں وجہ تنازع زن، زر اور زمین — اور درمیان میں کہیں کہیں محبت بھرے گیت سنگیت کے چھینٹے اور کبھی گرجتے برستے بھنگڑے۔
آزادی سے ستر کی دہائی تک کی یہ تاریخ مختصر ہے اور جامع بھی نہیں لیکن بعض فلمیں پروڈکشن اور پذیرائی میں نئے موڑ لے کر آئیں جن میں 1970 میں بنی ہدایت کار مسعود پرویز کی رومانوی شاہکار فلم ’ہیر رانجھا‘ اور 1979 میں ریلیز ہوئی ہدایت کار یونس ملک کی ’مولا جٹ‘ اہم سنگ میل ہیں۔ اس فلم نے ایک طرف باکس آفس پر ریکارڈ قائم کیے اور دوسری طرف اپنے ڈائیلاگ کی دھاک ایسی بٹھائی کہ چار دہائیوں سے زبان زد عام ہیں۔
- مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا!
- نواں آیاں ایں سوہنیا؟
- کدی پھنیر سپ دا سِر وی چکیا اے!
- وے جٹی تے آپ بڑی خر دماغ اے !
جس نسل کے لوگوں نے پرانی ’مولا جٹ‘ بھی دیکھ رکھی ہے وہ نہ چاہتے ہوئے دونوں میں موازنہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں خود مصطفیٰ قریشی کا بیان حرفِ آخر ہے کہ ’ہماری پرانی مولا جٹ غریبانہ جبکہ نئی مولا جٹ امیرانہ فلم ہے۔‘
نئی فلم میں پرانی مولا جٹ والا ماحول ڈھونڈنے والے تیار ہو کر جائیں کیونکہ نئی مولا جٹ دیکھنے کے بعد ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو چکا ہو گا۔
پرانی فلم کا بہت مضبوط حصہ اس کے ڈائیلاگ اور موسیقی ہے۔ جبکہ نئی فلم کی کہانی بھی قدرے مختلف اور ڈائیلاگ بھی نئے ہیں۔ پرانے مشہور ڈائیلاگ جو زبان زدِ عام ہیں ان کو ناصر ادیب نے نئی فلم میں نہایت کفایت شعاری سے استعمال کیا ہے اور نئے مکالموں پر زیادہ انحصار کیا ہے لیکن کیا نئے ڈائیلاگ ایسے ہیں جو 50 سال تک یاد رہ جائیں؟ گو کہ لکھنے والا ایک ہی ہے یعنی ’اصلی تے وڈے‘ ناصر ادیب!
موسیقی میں تو پرانی فلم کا کوئی ثانی نہیں جس میں ماسٹر عنایت حسین کے ترتیب دیے ہوئے اور میڈم نور جہاں، عنایت حسین بھٹی، شوکت علی، غلام علی، مہناز اور عالم لوہار کے گائے ہوئے گیت آج بھی مقبول ہیں۔
نئی فلم میں البتہ صائمہ بلوچ کا ترک اور وسطی ایشیا کے ملے جلے رنگوں والا رقص لاجواب ہے، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، گو کہ اس کا پنجابی ڈانس سے کوئی تعلق نہیں۔حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی!
پرانے ڈائیلاگ تقریباً آدھی صدی سے زندہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی فلم کے نئے ڈائیلاگ شائقین کو کتنا عرصہ یاد رہتے ہیں!
اور اب حرفِ آخر کے طور پہ پوچھنا یہ ہے کہ جب بھی مولا جٹ کا کزن مودا کہتا ہے کہ مجھے ایک شعر یاد آیا ہے تو سب ٹائٹلز میں شعر کا ترجمہ Joke کیوں کیا گیا ہے؟ بلکہ اس سوال کو یوں پوچھنا چاہیے کہ کس نے کیا ہے؟ اور کیا اس مضحکہ خیز ترجمے کو نظر انداز کرنے والے جبکہ گنڈاسے کو سنجیدگی سے لینے والے کیا واقعی شعر کو مذاق سمجھتے ہیں؟