ترکی نے استنبول بم دھماکے کا ذمہ داری کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) پر عائد کرتے ہوئے ایک مشتبہ فرد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق ملک کے وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ فرد جس نے یہ بم نصب کیا تھا اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ہماری تفتیش کے مطابق دہشت گرد تنظیم پی کے کے اس کی ذمہ دار ہے۔‘
انقرہ پی کے کے کو کالعدم قرار دے چکا ہے اس کے علاوہ کئی مغربی ممالک نے بھی اس گروپ کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ یہ تنظیم ترکی میں 1980 کی دہائی سے ہی علیحدگی پسندی کی تحریک چلا رہی ہے۔
اس حملے میں اب تک چھ افراد کی ہلاکت اور 51 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اتوار کو استبول کی استقلال سٹریٹ میں ہونے والے اس حملے کے حوالے سے ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا غلط ہو گا کہ یہ دہشت گرد حملہ ہے لیکن اگر ہم ابتدائی شواہد کو دیکھیں تو یہ دہشت گردی محسوس ہوتی ہے۔‘
انڈونیشیا میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے لیے روانگی سے قبل انہوں نے اس بم دھماکے کو ’ایک بزدلانہ حملہ‘ قرار دیا۔
استنبول میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے ذریعے ترکی اور ترک عوام کو شکست دینے کی کوششیں آج بھی اسی طرح ناکام ہوں گی جس طرح انہوں نے کل کی تھیں اور آئندہ بھی ناکام ہوں گی۔‘
انہوں نے کہا، ’میں اپنے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ حملے کے پیچھے موجود مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ ’ایک خاتون نے اس میں کردار ادا کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ابھی واضح نہیں کہ یہ دہشت گرد حملہ ہے لیکن میرے گورنر کی جانب سے ابتدائی پیش رفت اور ابتدائی انٹیلی جنس یہ ہے کہ اس سے دہشت گردی کی بو آ رہی ہے۔‘
یہ دھماکہ ترکی کے شہر استنبول کے استقلال ایونیو پر ہوا۔
An explosion has been reported in #Istanbul’s iconic Istiklal street #taksim square #Turkey pic.twitter.com/t6X8brFGTV
— Saida Zahidova (@Saida_Zahidova) November 13, 2022
استنبول کے گورنر علی یرلیکیا نے ایک ٹویٹ کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ دھماکہ مقامی وقت کے مطابق 4:20 پر ہوا تھا جس سے ہلاکتیں ہوئی ہیں اور لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں لیکن انہوں نے تعداد نہیں بتائی۔
57 سالہ عینی شاہد کیمل ڈینیزسی نے اے ایف پی کو بتایا ’میں 50-55 میٹر دور تھا، اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی۔ میں نے تین یا چار لوگوں کو زمین پر دیکھا۔‘
’لوگ گھبراہٹ میں بھاگ رہے تھے۔ شور بہت زیادہ تھا۔ کالا دھواں تھا۔ دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ میں تقریباً بہرا ہو رہا تھا۔‘
ترک خبر رساں ادارے ٹی آر ٹی کے مطابق استنبول کے چیف پبلک پراسیکیوٹر نے دھماکے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور پانچ سرکاری تفتیش کار مقرر کیے گئے ہیں۔
ترکی میں ابلاغ عامہ کے ڈائریکٹر فحرتین التون نے کہا۔ ’ہماری ریاست کے تمام ادارے اور تنظیمیں اس واقعے کے حوالے سے تیز، باریک بین اور موثر تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
اس کے علاوہ استنبول کریمنل کورٹ آف پیس نے دھماکے سے متعلق تمام بصری اور آڈیو خبروں سمیت سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر نشریات کی پابندی عائد کردی گئی۔
فحرتین التون نے مزید کہا ’ہم میڈیا اداروں کو ذمہ دار بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے حاصل کردہ گمراہ کن مواد پر انحصار نہ کریں، اور متعلقہ سرکاری حکام کے بیانات کو بنیادی ذریعہ برائے خبر بنائیں۔‘
ترک سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ وہاں دکانیں بند کر دی گئی ہیں اور راستے بھی بند ہیں۔
Security forces and emergency services are deployed at Istanbul's Istiklal following a loud explosion. pic.twitter.com/fTm0TlbwKA
— Ted Regencia تِد (@tedregencia) November 13, 2022
ترکی نے استنبول بم دھماکے کا ذمہ داری کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) پر عائد کرتے ہوئے ایک مشتبہ فرد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق ملک کے وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ فرد جس نے یہ بم نصب کیا تھا اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ہماری تفتیش کے مطابق دہشت گرد تنظیم پی کے کے اس کی ذمہ دار ہے۔‘
اتوار کو استبول کی استقلال سٹریٹ میں ہونے والے اس حملے کے حوالے سے ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا غلط ہو گا کہ یہ دہشت گرد حملہ ہے لیکن اگر ہم ابتدائی شواہد کو دیکھیں تو یہ دہشت گردی محسوس ہوتی ہے۔‘
انڈونیشیا میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے لیے روانگی سے قبل انہوں نے اس بم دھماکے کو ’ایک بزدلانہ حملہ‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آن لائن سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور ایک زوردار دھماکے سے پیدل چلنے والے مڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
دیگر فوٹیج میں ایمبولینس، فائر ٹرک اور پولیس کو جائے وقوعہ پر دکھایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ دکانیں بند کر دی گئیں اور راستے بند ہو گئے۔
یہ ایک پرہجوم راستہ ہے جو سیاحوں اور مقامی لوگوں میں مقبول ہے، جس پر دکانیں اور ریستوراں ہیں۔
ترک حکام کے مطابق پولیس نے علاقے کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے اسے آمدورفت کے لیے بند کر دیا ہے جبکہ تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔
استقلال سٹریٹ استنبول کا سب مصروف علاقہ ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا گزر ہوتا ہے جن میں سیاح بھی شامل ہیں۔
ترکی کو 2015 اور 2017 کے درمیان داعش اور کالعدم کرد گروپوں کی جانب سے کئی مہلک بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ترکی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
I have learnt with deep anguish about the explosion at popular Istiklal avenue in the heart of Istanbul. Govt & people of Pakistan express deepest condolences to the brotherly people of Turkiye at the loss of precious lives & send prayers for the speedy recovery of the injured.
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) November 13, 2022
ان کا کہنا تھا کہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر بے حد افسوس ہے۔
’بچوں سمیت واقعے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔‘