امریکہ کا چین کے بحری جہازوں کے لیے نئی پورٹ فیس کا اعلان

یہ اقدام ایسے اس وقت کیا گیا جب امریکہ اور چین محصولات پر ایک بڑی تجارتی تنازع میں ملوث ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔

15 اپریل 2025 کو سان پیڈرو، کیلیفورنیا میں لاس اینجلس کی بندرگاہ پر بحری جہازوں پر سے کرینوں کے ذریعے کارگو کنٹینرز اتارے جا رہے ہیں (پیٹرک ٹی فالن / اے ایف پی)

امریکہ نے اپنی جہاز سازی کی صنعت کو فروغ دینے اور اس شعبے میں چین کے غلبے کو کم کرنے کی غرض سے چینی ساختہ اور چینی کمپنیوں کے بحری جہازوں کے لیے نئی بندرگاہ (پورٹ) فیس متعارف کی ہے۔  

یہ اقدام، جو سابقہ ​​انتظامیہ کے تحت شروع کی گئی تحقیقات کا نتیجہ ہے، ایسے وقت سامنے آیا جب امریکہ اور چین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے محصولات پر ایک بڑی تجارتی جنگ میں ملوث ہیں اور نئی پورٹ فیس کا معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق: امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر نے نئی فیسوں کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ’بحری جہاز اور ترسیل امریکی اقتصادی سلامتی اور تجارت کے آزادانہ بہاؤ کے لیے اہم ہیں، جن میں سے بیشتر اکتوبر کے وسط میں شروع ہوں گی۔‘

نئے اصول کے تحت، فی ٹن فیس چین سے منسلک ہر جہاز کے امریکی سفر پر سال میں پانچ مرتبہ لاگو ہو گی۔ تاہم ایسا ہر بندرگاہ پر نہیں ہو گا جیسا کہ اس شعبے سے متعلق کچھ حلقوں کو تشویش تھی۔

چین سے چلنے والے بحری جہازوں اور چینی ساختہ بحری جہازوں کے لیے الگ الگ فیسیں ہوں گی اور دونوں (فیسوں) میں آنے والے سالوں میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تمام غیر امریکی ساختہ کار کیریئر ویسلز کو بھی 180 دنوں میں شروع ہونے والی فیس کی زد میں لایا جائے گا۔  

نئی پالیسی کے تحت مائع قدرتی گیس (ایل این گی) لانے لے جانے والے بحری جہازوں پر بھی نئی فیسیں متعارف کرائی گئی ہیں، تاہم ان کا اطلاق تین سال بعد ہو گا۔  

اعلان کے ہمراہ موجود ایک فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے کہ فیسوں میں ’عظیم جھیلوں یا کیریبین شپنگ، امریکی علاقوں میں اور وہاں سے شپنگ، یا بحری جہازوں پر اشیا کی بڑی مقدار کی برآمدات کا احاطہ نہیں کیا جائے گا جو امریکہ خالی پہنچتے ہیں۔‘


گریر نے کہا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات چینی تسلط کو تبدیل کرنا شروع کر دیں گے، امریکی سپلائی چین کو درپیش خطرات کو دور کریں گے اور امریکی ساختہ جہازوں کے لیے ڈیمانڈ سگنل بھیجیں گے۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ہفتے قبل تمام ممالک پر اضافی ٹیرف کا اعلان کیا تھا، لیکن اچانک درجنوں ممالک کے لیے زیادہ ’جوابی ٹیرف‘ واپس لے لیے، جبکہ چین پر سخت محصولات برقرار رکھے۔

بیجنگ نے اس کے ردعمل میں امریکی اشیا پر اپنی محصولات بڑھا دیں اور مذاکرات کی کوئی کوشش نہیں کی، جس کے بارے میں بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ صرف باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر ہی ہو سکتے ہیں۔

دریں اثنا، کئی دیگر ممالک نے واشنگٹن کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں پر غور شروع کر دیا ہے۔

گذشتہ ہفتے، چین نے عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیو ٹی او) میں ایک نئی شکایت بھی درج کروائی، جس میں امریکی ٹیرف پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن پر عالمی تجارتی ادارے کے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
اس ہفتے، چین نے غیر متوقع طور پر ایک نئے تجارتی مذاکرات کار کو مقرر کیا ہے جو بڑھتے ہوئے ٹیرف کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے کسی بھی بات چیت میں کلیدی کردار ادا کرے گا، اور اس نے تجارتی زار وانگ شووین کو ہٹا کر اپنے ڈبلیو ٹی او کے ایلچی لی چینگ گانگ کو مقرر کیا ہے۔

واشنگٹن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن بیجنگ کو پہل کرنا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا