امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر منصوبہ بند اسرائیلی حملے کو روکا اور تہران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے معاہدے پر بات چیت کو ترجیح دی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ رپورٹ نیویارک ٹائمز نے بدھ کو انتظامیہ کے حکام اور دیگر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے شائع کی۔
اخبار کے مطابق: ’اسرائیل نے مئی میں ان مقامات پر حملے کے منصوبے تیار کیے تھے، جن کا مقصد ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ایک سال یا اس سے زیادہ پیچھے دھکیلنا تھا۔‘
نیویارک ٹائمز نے کہا کہ نہ صرف ایران کی جوابی کارروائی سے اسرائیل کے دفاع کے لیے بلکہ حملے کو کامیاب بنانے کے لیے بھی امریکی مدد درکار تھی۔
مہینوں کی اندرونی بحث کے بعد، ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، بجائے اس کے کہ وہ فوجی کارروائی کی حمایت کریں۔
امریکہ اور ایران نے گذشتہ ہفتے عمان میں مذاکرات کیے۔ یہ ٹرمپ کی پہلی اور دوسری مدت صدارت کے دوران پہلی بار ہوا ہے۔ دونوں ممالک نے ان مذاکرات کو ’مثبت‘ اور ’تعمیری‘ قرار دیا۔
ہفتے کی دوپہر مذاکرات عمان میں ایک مخصوص مقام پر ہوئے تھے۔
امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے مذاکرات کے اختتام پر عمانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں مختصراً بات چیت کی، جو ان دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم براہِ راست رابطہ تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے عمان کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ یہ مذاکرات ’دوستانہ ماحول‘ میں ہوئے اور ایک ’منصفانہ اور لازمی معاہدے‘ کی تلاش کا آغاز ہوا ہے۔
دوسرے دور کا اجلاس ہفتے کو طے ہے، اور منصوبہ بندی سے آگاہ ایک ذریعے نے کہا کہ یہ ملاقات غالباً روم میں ہو گی۔
اکتوبر 2024 میں امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، امریکی انٹیلی جنس کی انتہائی خفیہ دستاویزات لیک ہو گئیں جن میں اسرائیل کے ایران پر ممکنہ حملے کی تیاریوں کا انکشاف کیا گیا تھا۔
ان دستاویزات میں اسرائیلی ہتھیاروں کی نقل و حرکت، فضائیہ کی مشقیں اور ایران کے یکم اکتوبر کے بیلسٹک میزائل حملے کے ممکنہ جواب سے متعلق تفصیلات شامل تھیں۔
یہ معلومات مبینہ طور پر امریکی انٹیلی جنس اداروں، جیو سپیشل ایجنسی اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی — سے منسوب تھیں اور ’ٹاپ سیکرٹ‘ درجے کی تھیں، جنہیں ٹیلی گرام پر افشا کیا گیا۔
امریکی حکام نے تحقیقات کا آغاز کیا کہ آیا یہ لیک کسی اندرونی اہلکار کی جانب سے جان بوجھ کر کی گئی یا یہ سائبر حملے کا نتیجہ تھی۔ ایف بی آئی اور پینٹاگون نے تحقیقات میں شامل تھیں۔
یہ لیک ایسے وقت پر سامنے آئی جب امریکہ اسرائیل کو ایران پر حملے سے باز رکھنے کی سفارتی کوششوں میں مصروف تھا، اور خود اسرائیل غزہ اور لبنان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بیچ ایران کو جواب دینے کے لیے پُرعزم نظر آ رہا تھا۔
اسی سال مارچ میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ امریکہ کی بمباری کی دھمکی پرعمل کیا کی صورت میں واشنگٹن کو ’زبردست جوابی کارروائی‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ روز قبل ایک مرتبہ پھر دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایران مارچ کے آغاز میں ایرانی قیادت کو بھیجے گئے خط میں مذاکرات کی پیشکش قبول نہیں کرتا تو اسے ’بمباری‘ کا سامنا کرنا ہو گا۔
اس خط میں تہران کو فیصلہ کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دی گئی تھی۔
امریکی صدر کی اس ’دھمکی‘ کے جواب میں خامنہ ای نے کہا کہ ’امریکہ اور اسرائیل کی (ایران کے ساتھ) دشمنی ہمیشہ سے رہی ہے۔ وہ ہمیں حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں جن پر عمل ہمیں زیادہ ممکن نہیں لگتا، لیکن اگر انہوں نے کوئی شرارت کی تو یقینی طور پر انہیں زبردست کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔‘
ایرانی حکام 2022-2023 کا وہ احتجاج جو مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد کیا گیا۔ اور 2019 میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا الزام مغرب پر عائد کرتے ہیں۔
ایران نے امریکی خط کا جواب دیا تھا اور صدر مسعود پزشکیان نے وضاحت کی تھی کہ تہران واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا تاہم آیت اللہ خامنہ ای کی ہدایت کے مطابق بالواسطہ بات چیت جاری رکھنے پر تیار ہے۔
اپنے پہلے دور صدارت (2017 سے 2021) میں ٹرمپ نے امریکہ کو اس 2015 کے معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ کر لیا تھا جو ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا اور جس کے تحت تہران کی متنازع جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں، بدلے میں ایران کو پابندیوں کے خاتمے کی سہولت دی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ نے نہ صرف یہ معاہدہ منسوخ کر دیا بلکہ امریکہ کی جانب سے وسیع پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔
اس کے بعد سے ایران نے یورینیئم کی افزودگی کے حوالے سے معاہدے کی حدود سے کہیں آگے تجاوز کر لیا۔
مغربی طاقتیں ایران پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے یورینیئم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کر رہا ہے، جو ان کے بقول کسی بھی ایٹمی توانائی کے سول پروگرام کے لیے درست نہیں۔
تہران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر توانائی کے غیر فوجی مقاصد کے لیے ہے۔
ایران ایٹم بنانے کے قریب
اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے بدھ کو مذاکرات کے لیے تہران پہنچنے سے قبل خبردار کیا کہ ایران جوہری بم رکھنے سے ’دور نہیں‘ ہے۔
امریکہ سمیت مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں - اس الزام کی تہران مسلسل تردید کرتا رہا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
گروسی نے بدھ کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں فرانسیسی اخبار لی مونڈے کو بتایا کہ ’یہ ایک پہیلی کی طرح ہے۔ ان کے پاس ٹکڑے ہیں، اور ایک دن وہ بالآخر انہیں ایک ساتھ رکھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے ابھی بھی ایک راستہ باقی ہے۔ لیکن وہ زیادہ دور نہیں ہیں، ان کو تسلیم کرنا ہوگا۔‘
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے نگران ادارے کو ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے 2015 کے جوہری معاہدے کی تعمیل کی نگرانی کا کام سونپا گیا تھا، جو تین سال بعد اس وقت ٹوٹ گیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ اس سے دستبردار ہو گیا۔
آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی نے کہا کہ ’بین الاقوامی برادری کو یہ بتانا کافی نہیں ہے کہ ’ہمارے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں‘ تاکہ وہ آپ پر یقین کریں۔
وہ بدھ کو تہران پہنچے اور وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کی، جنہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ دونوں کے درمیان ’مفید گفتگو‘ ہوئی ہے۔