’پہلے دور میں یہ فن سینہ بہ سینہ منتقل ہوا کرتا تھا۔ اگر 10 میل تک بھی کوئی استاد ہوتا تو لوگ پیدل جا کر یہ فن سیکھتے اور استاد کو کہتے کہ آپ یہ فن منتقل کریں ہم آپ کی سچائی سے خدمت کریں گے اور آپ کی زمینوں کا کام بھی کریں گے۔‘
یہ کہنا تھا الغوزہ ساز بجانے والے استاد اکبر خمیسو خان سے جو اب تک 32 ملکوں میں پرفارم کر چکے ہیں۔ اکبر نامور الغوزہ نواز استاد خمیسو خان کے بیٹے ہیں، جن کو دو بار صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اکبر خمیسو خان کے والد خمیسو خان کو دو بار صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انہیں پہلی بار 1979 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا دوسری بار 1982 میں ستارہ امتیاز ایوارڈ ملا۔ وہ 1983 میں حیدرآباد میں انتقال کر گئے تھے۔
اکبر ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں بطور الغوزہ پلئیر نوکری کرنے کے علاوہ پاکستان اور بیرون ممالک کے موسیقی کے طالب علموں کو آن لائن الغوزہ سکھاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے آٹھ شاگرد ہیں جن میں سے سوئٹزر لینڈ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک سے لوگ شامل ہیں۔
اکبر کے مطابق ان کے کچھ شاگرد یہ فن سیکھنے کے بعد تقریبات میں پرفارم بھی کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں اکبر نے اس تاثر کو رد کیا کہ الغوزہ مصری ساز ہے۔ وہ اپنی تحقیق کے حوالے سے اس ساز کو خالصتاً مقامی یا سندھی ساز قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے: ’ اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ الغوزہ مصری ساز ہے اور مقامی نہیں تو میں اسے بجانا چھوڑ دوں گا۔‘
الغوزہ دوہری بانسریوں سے بنایا جاتا ہے۔ اکبر نے بتایا کہ ’مصر سے صرف لکڑی کی صورت میں ایک بانسری یہاں منتقل ہوئی، جس کے بعد اس ساز پر مقامی طور پر تجربے ہوئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کی آواز کو مذید سخت اور خوبصورت بنانے کے لیے اسے ڈبل فلوٹ( دوہری بانسری ) میں تبدیل کر دیا گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’آپ اگر ان بانسریوں کا مشاہدہ کریں تو اس میں پیتل یا سلور کی بنی ایک نلکی نظر آئے گی جس سے اس کی آواز اور مضبوط اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔‘
اکبر کے مطابق ’جب الغوزہ کا نام آتا ہے تو استاد مصری خان جمالی، ان کے والد خمیسو خان اور ان کا نام سامنے آتا ہے۔‘
’اس کے علاوہ بھی چند نام ہیں اللہ بچایو کھوسہ، عرس بھٹی، ارباب کھوسہ وغیرہ نے بھی اس میں نام کمایا۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اس وقت اس ساز کو بجانے والے صرف سات آٹھ لوگ بچے ہیں۔
’جیسے قدیم ساز سارنگی اب کوئی نہیں بجاتا کماچہ ساز بجانے والا پاکستان میں صرف ایک ہی فنکار بچا ہے۔‘
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسے سازوں کو بجانے والے فنکاروں کی مدد کرے۔‘
اکبر کہتے ہیں کہ ’جس طرح بھارت کے نصاب میں ان کے والد خمیسو خان، مصری خان اور ان کا نام الغوزہ پلئیر کے طور پر ذکر ہے، ایسے ہمارے ہاں نصاب میں جدید ریسرچ کے بنیاد پر فنکاروں کے نام شامل کیے جائیں۔‘
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر، فرخ عباس)