ہمارے ایک باس ہوا کرتے تھے، سخت گیر، روکھے اور زندگی سے بیزار۔ ویسے تو ہر باس ہی ایسا ہوتا ہے مگر یہ صاحب کچھ زیادہ ہی مردم بیزار تھے۔
البتہ ان کی ایک عادت مجھے بہت پسند تھی، بات بالکل دو ٹوک انداز میں کرتے تھے۔ جب بھی صبح موصوف کا فون آتا تو فقط کام کی بات کرتے جو زیادہ سے زیادہ 10 سیکنڈ میں بات ختم ہو جاتی اور اس میں ان کا کوئی کمال نہیں تھا کیوں کہ ان کی طبیعت ہی مردم بیزار تھی۔
ذاتی طور پرمجھے گفتگو کرنے کا یہ انداز کافی پسند ہے، اس میں بندہ ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتا۔
مشہور زمانہ ٹی وی سیریز ’ہاؤس آف کارڈز‘ میں ایک ارب پتی امریکی کا کردار دکھایا گیا ہے جو بے حد مصروف آدمی ہے، ایک منظر میں دکھاتے ہیں کہ وہ دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے اپنے کاروباری معاملات کو کس انداز میں چلاتا ہے۔ اس نے اپنے سی ای اوز سے بات کرنے کے لیے صبح کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے فون کرتے ہیں۔ اس نے انہیں ہدایات دے رکھی ہیں کہ وہ کسی قسم کی تمہید باندھے بغیر ایسا سوال پوچھیں جس کا جواب ہاں یا ناں میں دیا جا سکے۔ سو وہ ایک کے بعد دوسرا فون اٹھاتا ہے اور کسی کو ہاں اور کسی ناں میں جواب دیتا ہے۔
بے شک ہر آدمی اس انداز میں بات کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے کم ازکم ارب پتی ہونا ضروری ہے، مگرمختصر اور دو ٹوک بات کرنے لیے دولت مند ہونا ضروری نہیں، اس کے لیے محض اس بات کا احساس ضروری ہے کہ طویل گفتگو لوگوں کو بور کرتی ہے۔ خاص طور سے اگر مسلسل ہو اور اپنی ہی ذات کے بارے میں ہو۔
مگر مصیبت یہ ہے کہ کم ہی لوگوں کو اس بات کا احساس ہو پاتا ہے کہ وہ دوسرے کو بور کر رہے ہیں۔
ایک مرتبہ دفتر میں ایک صاحب ملنے آئے، ساتھ میں ان کا بیٹا تھا، آتے ہی انہوں نے اپنے برخوردار کی تعریفیں شروع کر دیں اور بتایا کہ ان کے ہونہار سپوت نے کتنی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور وہ کس کامیاب انداز میں اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ اس دوران وہ صاحب مسلسل بولتے رہے اور میں خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا، درمیان میں جب وہ سانس لینے کے لیے رکے تو میں نے موقع غنیمت جان کر برخوردار سے کوئی سوال کر دیا۔
اس سے پہلے کہ وہ بے چارہ کوئی جواب دیتا، وہ صاحب پھر بول پڑے اور بیٹے سے پوچھے گئے سوال کی وضاحت کرنے لگے۔ دو منٹ بعد میں نے دوبارہ اس سے کوئی سوال کیا تو پھر موصوف بیچ میں کود پڑے۔ اس مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ آپ بیٹے کو جواب دینے دیں آخر وہ اتنا قابل ہے، اپنا دفاع خود کر سکتا ہے، بمشکل 30 سیکنڈز گزرے ہوں کہ ان سے رہا نہیں گیا اور وہ پھر درمیان میں بول پڑے۔
اس کے بعد میں نے انہیں کچھ نہیں کہا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ سُن لیں۔ یہ چند سال پہلے کی بات ہے، میں غالباً اٹلی میں تھا۔ وہاں میں نے اپنے دوست کو یہ بتانے کے لیے فون کیا کہ میں اس کے شہر میں ہوں اور ہم ملاقات کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مصروف نہ ہو۔
وہ اس وقت اپنے دفتر میں تھا، نہایت جلدی میں اس نے میرا فون سنا اور پھر انگریزی میں جواب دیا کہ ’I will get back to you in the evening after my job‘۔ میں یہ مختصر مگر جامع جواب سن کر بہت متاثر ہوا۔ چند ماہ بعد وہی شخص پاکستان آیا، دفتری اوقات میں اس نے مجھے فون کیا اور پنجابی میں پوچھا کہ کیا میں دفتر میں ہوں اور پھر ہاں میں جواب پاکر بولا کہ بس میرا انتظار کرو، میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں، گپ لگائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے یہ بات آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ ’ٹو دی پوائنٹ‘ بات کرنے والے لوگ جب پاکستان پہنچتے ہیں تو ان کی جُون کیوں بدل جاتی ہے اور یکایک وہ یہ کیوں سمجھنے لگتے ہیں کہ یہاں ہر بندہ دفتر میں گپ لگانے کے لیے فارغ بیٹھا ہے۔
میں خود بھی گپ شپ لگانے کا بےحد شوقین ہوں، دوستوں کی محفل میں ہم ہر ہفتے مل کر یہی کام کرتے ہیں مگر وہاں بھی جب کوئی دوست طویل گفتگو چھیڑ دیتا ہے تو لا محالہ بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔
طویل باتیں کوئی بھی نہیں سننا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب فون کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو صوتی پیغامات بھیج دیتے ہیں اور ان پیغامات کو تیزی سے چلا کر بھی سنا جا سکتا ہے۔
اس سے اندازہ لگا لیں کہ کسی کی طویل گفتگو سننا کس قدر بوریت کا کام ہے۔
طویل اور بور گفتگو کرنے والوں میں ایک عجیب بات میں نے نوٹ کی ہے کہ ایسے لوگ مد مقابل کی بات نہایت لا تعلقی سے سنتے ہیں۔ آپ ان کے سامنے چاہے تحیر آمیز باتیں ہی کیوں نہ کریں یا انہیں بے حد دلچسپ واقعات ہی کیوں نہ سنائیں، وہ سپاٹ چہرہ بنا کر آپ کی باتیں سنیں گے، درمیان میں جمائیاں لیں گے، خلا میں گھورنے لگیں گے یا اچانک ویٹر کو بلا کر کہیں گے کہ ان کے لیے مزید کافی لے کر آؤ اور پھر یہ بھی بتائیں گے کہ کافی بنائی کیسے جاتی ہے۔
ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جویہ سب کام نہیں کرتے لیکن آپ کی باتوں کے جواب کسی قسم کا رد عمل بھی نہیں دیتے جو نہایت زچ کردینے والی بات ہے۔
مثلاً اگر آپ انہیں کہیں گے کہ کل میں خلائی جہاز میں بیٹھ کر مریخ جا رہا ہوں تو وہ جواب میں بس ایک لمبی سی ’ہوں‘ کر دیں گے اور پھر بتانے لگیں گے کہ کیسے انہیں بھی مریخ پر جانے کی پیشکش کی گئی تھی مگر انہوں یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس دن تاندلیانوالہ میں ان کے سالے کی شادی تھی۔
اگر آپ بھی میری طرح طویل اور اکتا دینے والی گفتگو کرنے والے لوگوں سے بیزار ہیں تو پھر آئیں مل کر آہ و زاریاں کرتے ہیں۔ مگر خیال رہے کہیں ہماری آہ و زاریاں طویل نہ ہوجائیں اور ہمارا شمار بھی ان بور لوگوں میں نہ ہونے لگے جنہیں دیکھ کر لوگ پکاریں کہ صاحب پرے پرے!