کراچی میں کے21 نیوز چینل سے منسلک صحافی اور اینکر پرسن ردا سیفی نے ہفتے کو کہا کہ گذشتہ رات سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ افراد نے ان کی گاڑی روک کر خود کو محکمہ ایکسائز کے اہلکار کے طور پر تعارف کراتے ہوئے ان کے ڈارئیور کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے بدسلوکی کرنے کے ساتھ ان سے پانچ ہزار روپے وصول کیے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر حامد الرحمٰن اور سیکریٹری سید نبیل اختر نے ردا سیفی کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’کے 21 نیوز کی اینکر ردا سیفی کو محکمہ ایکسائز کے اہلکاروں کی جانب سے رات کے وقت روک کر ٹیکس وصولی کا کون سا طریقہ ہے؟ اس طرح بغیر خاتون اہلکار کے کسی خاتون صحافی کو روکنا ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔‘
کے یو جے دستور کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی تحقیقات اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کے رکن، پاکستان پریس کونسل آف پاکستان کے رکن اور کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری جنرل عامر لطیف نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ کے ترجمان شبیر بابر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ردا سیفی کا بدسلوکی کا الزام درست نہیں اور ’محکمے کی جانب سے ٹیکس نادہندگان، فنیسی نمبر پلیٹ اور کالے شیشوں کے خلاف روڈ چیکنگ کے سلسلے میں ان کی گاڑی کو روکا گیا گیا۔‘
ردا کے پرسنل فیس بک اکاؤنٹ پر لائیو ویڈیو میں ان کو ایکسائز اہلکاروں کو اپنے ڈرائیور پر تشدد اور بدسلوکی نہ کرنے کی درخواست کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ردا نے کہا کہ وہ گذشتہ کئی سال سے پروگرام کی میزبان ہونے کے ساتھ فارن افیئرز شوز کی رپورٹنگ بھی کرتی رہی ہیں اور گذشتہ رات ایک غیر ملکی قونصل خانے کی دعوت پر جا رہی تھیں جب یہ واقعہ پیش آیا۔
ردا کے مطابق: ’میں ایک غیر ملکی قونصل خانے کی دعوت میں شرکت کرنے اپنے ڈرائیور کے ساتھ جا رہی تھی۔
’ہم نے جیسے ہی پی آئی ڈی سی کراس کر کے مائی کولاچی روڈ کی طرف سفر شروع کیا تو 10 سے 15 افرد نے گاڑی کو روک لیا۔‘
’میں اس وقت فون پر بات کر رہی تھی۔ میں نے سوچا کچھ پوچھ رہے ہوں گے، مگر شور ہونے پر میں فون بند کرکے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟
’سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نے خود کو ایکسائز کے اہلکار کے طور پر متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آپ کی گاڑی کے شیشے کالے ہیں، اس کا چالان ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ردا کے مطابق: ’میں نے ان سے کہا شیشے کالے نہیں ہیں بلکہ شیڈ لگائے ہیں تو انہوں نے کہا آپ کی گاڑی کا ٹیکس جمع نہیں، آپ کو ابھی چالان کی رقم ادا کرنا ہو گی۔
’اس کے ساتھ ہی ان افراد نے میرے ڈرائیور پر تشدد کرنے کے ساتھ بدسلوکی کی۔ ان میں ایک بھی خاتون اہلکار نہیں تھی، تمام مرد حضرات تھے۔ میں ان کے رویے سے ٹرانس میں چلی گئی۔‘
ردا نے بتایا کہ ’بہت بحث کے بعد انہوں نے پانچ ہزار روپے مانگے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ کس مد میں یہ رقم مانگ رہے ہیں۔‘
’پہلے میں نے کیش رقم دینا چاہی تو انہوں نے کہا نہیں آپ آن لائن ٹرانسفر کریں۔ جو میں نے ادا کر دیے، مگر رسید پر کچھ بھی درج نہیں تھا کہ یہ رقم کس مد میں لی گئی ہے۔‘
ردا کے مطابق ان کی گاڑی کا ٹیکس دسمبر 2025 تک جمع ہے اور ان کی گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی اصلی ہے۔
بقول ردا: ’ٹیکس کے متعلق نہ تو مجھے کوئی چالان، میسج یا کال آئی اور اس طرح رات کے اوقات میں روڈ پر گاڑی کو روک کر ٹیکس لینا ہراسمنٹ سے کم نہیں۔
’یہ واقعہ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے پیش آیا اور مجھے آٹھ بج کر 54 منٹ پر میسج آیا کہ یہ چالان ہے اور آپ ٹیکس ادا کریں۔‘
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ کے ترجمان شبیر بابر نے کہا کہ ’محکمے کی جانب سے ٹیکس نادہندگان، فینسی نمبر پلیٹ، کالے شیشیوں کے خلاف مہم کے سلسلے میں شہر بھر میں گاڑیوں کو روک کر چیک کیا جا رہا ہے۔
’اسی مہم کے سلسلے میں ردا سیفی کی گاڑی روکی گئی تھی، کیوں کہ ان کی گاڑی کا ٹیکس ادا نہیں کیا گیا تھا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ردا کی گاڑی پر کتنا ٹیکس واجب ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ چیک کر کے بتاتے ہیں مگر اس خبر کے فائل ہونے تک ان کا جواب نہیں آیا۔