چین میں پہلی بار روبوٹس اور انسانوں کی میراتھن ریس

کچھ روبوٹوں نے دوڑ مکمل کر لی جب کہ کچھ ابتدا ہی سے مشکلات کا شکار رہے۔

بیجنگ میں ہفتے کو منعقدہ یِژوانگ ہاف میراتھن میں انسان نما 21 روبوٹس نے ہزاروں دوڑنے والوں کے ساتھ حصہ لیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب مشینوں نے انسانوں کے ساتھ 21 کلومیٹر (13 میل) طویل دوڑ میں شرکت کی۔

ڈروئیڈ وی پی اور نوئٹکس روبوٹکس جیسی چینی کمپنیوں کے تیار کردہ روبوٹس مختلف شکلوں اور جسامتوں میں نظر آئے۔ 

کچھ کا قد 120 سینٹی میٹر (3.9 فٹ) سے بھی کم تھا جب کہ کچھ کی قامت 1.8 میٹر (5.9 فٹ) تھی۔ 

ایک کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس کا روبوٹ تقریباً انسان جیسا دکھائی دیتا ہے، نسوانی خدوخال رکھتا ہے اور آنکھ مارنے اور مسکرانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

کچھ کمپنیوں نے دوڑ سے پہلے کئی ہفتے تک اپنے روبوٹس کی آزمائش کی۔ بیجنگ کے حکام نے اس ایونٹ کو ریس کار مقابلے سے زیادہ مشابہ قرار دیا، کیوں کہ اس میں انجینیئرنگ اور نیویگیشن ٹیموں کی موجودگی ضروری تھی۔

’روبوٹس بہت اچھا دوڑ رہے ہیں، بہت مستحکم ہیں۔ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کی ارتقا کا منظر دیکھ رہا ہوں۔‘ یہ کہنا تھا ہی سیشو کا، جو مصنوعی ذہانت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

روبوٹس کے ساتھ انسانی تربیت کار بھی موجود تھے جن میں سے بعض نے دوڑ کے دوران مشینوں کو جسمانی طور پر سنبھالا بھی۔

کچھ روبوٹس نے دوڑنے والے جوتے پہن رکھے تھے۔ ایک نے باکسنگ کے دستانے پہنے ہوئے تھے اور ایک نے سر پر سرخ رنگ کی پٹی جما رکھی تھی جس پر چینی زبان میں لکھا تھا: ’جیتنا طے ہے۔‘

کچھ روبوٹوں نے دوڑ مکمل کر لی جب کہ کچھ ابتدا ہی سے مشکلات کا شکار رہے۔ ایک روبوٹ شروع میں ہی گر گیا اور چند منٹ تک زمین پر سیدھا لیٹا رہا، پھر اٹھا اور دوڑ پڑا۔ 

ایک دوسرا روبوٹ چند میٹر دوڑنے کے بعد ریلنگ سے ٹکرا گیا، جس کے نتیجے میں اس کا انسانی آپریٹر بھی گر پڑا۔

اگرچہ گذشتہ ایک سال کے دوران چین میں انسان نما روبوٹس مختلف میراتھن مقابلوں میں دکھائی دیتے رہے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نے انسانوں کے ساتھ دوڑ میں براہ راست حصہ لیا۔

چین کو امید ہے کہ روبوٹکس جیسے جدید شعبوں میں سرمایہ کاری نئی معاشی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ 

تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روبوٹس کا میراتھن میں شریک ہونا ان کے صنعتوں میں استعمال کی صلاحیت کا کوئی قابل اعتماد اشارہ نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اوریگن سٹیٹ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے پروفیسر ایلن فرن نے بیجنگ کے حکام کے اس دعوے کے برعکس کہا کہ اس طرح کی دوڑ کے لیے کسی ’مصنوعی ذہانت کے انقلابی کارنامے‘ کی ضرورت نہیں۔ 

ان کے مطابق انسان نما روبوٹس کو دوڑنے کے قابل بنانے والا سافٹ ویئر پانچ سال سے بھی پہلے تیار ہو چکا تھا اور اس کی نمائش بھی ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا: (’روبوٹوں اور انسانوں کی یہ میراتھن) زیادہ تر ہارڈ ویئر کی برداشت کا مظاہرہ ہے۔‘

’چینی کمپنیاں واقعی اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ ان کے روبوٹس چلنے، دوڑنے، ناچنے اور حرکت کے دیگر مظاہرے کر سکیں۔‘

فرن کے بقول: ’یہ مظاہرے بلاشبہ دلچسپ ہوتے ہیں لیکن یہ اس بات کا زیادہ ثبوت نہیں کہ روبوٹس کوئی مفید کام کر سکتے ہیں یا ان میں کسی قسم کی بنیادی ذہانت موجود ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی