یہ سال رخصت ہونے کو ہے اور میں شامِ وداع میں بیٹھا سوچ رہا ہوں اس ستم ظریف کو کیا نام دیا جائے؟
یکم جنوری سے 25 دسمبر تک کی خبروں کا ایک ہجوم میرے سامنے ہے۔ عنوان مختلف ہیں، متن جدا اور حاشیے بھی طویل۔ خلاصہ مگر مختصر اور یکساں ہے: یہ سال اخلاقی بحران کا سال تھا۔
12 مہینوں کا یہ سفر اماوس کی مسافت تھی۔ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ رخصت ہوتا یہ سال پلٹ کر کہہ رہا ہے کہ یہی حال رہا تو سیاست کی آنکھ میں حیا کی تلاش بھی اب کسی کوہ کنی سے کم نہیں ہو گی۔
عنوان اور متن کے اعتبار سے دیکھیں تو اس سال کی خبریں بہت سی ہیں۔ ’ایک پیج‘ تھا، حق مغفرت کرے،نہ رہا۔ سیلاب آیا اور شہر بہا لے گیا۔ معیشت آتش فشاں بن چکی۔ سیاسی استحکام روٹھ چلا۔ دہشت گردی پھر سے سر اٹھا رہی ہے۔
ان ساری خبروں پر سال بھر لمبی لمبی بحثیں ہو چکیں اور ہوتی رہیں گی۔ نظم، غزل، ہجو، قصیدہ سب کہا جا چکا۔ لیکن یہ سخن آرائی خلق خدا کے زخموں پر نمک کے پیوند ہیں۔ کہانی بس اتنی سی ہے کہ یہ سیاست اور یہ سماج اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو چکے اور یہ سال اس پر شاہد ہے۔
حقیقی موضوعات کھائی میں گر پڑے اور اخلاقی قدریں پامال ہو گئیں۔ مثالی صورت حال تو خیر کبھی بھی نہ تھی لیکن ایسا بھی کبھی نہ ہواتھا کہ غیر اخلاقی موضوعات کا آزار قومی بیانیے کو اپنی گرفت میں لے لے۔ قومی ذرائع ابلاغ سے لے کر قومی سیاست تک، ہر طرف آج ویڈیوز اور آڈیوز پر ایسے گفتگو ہو رہی ہے جیسے علم و فضل کے دریا بہائے جا رہے ہوں۔
جن معاملات پر بات کرنا تہذیب اور ذوق لطیف سے فروتر سمجھا جاتا تھا، اب وہ ہماری قومی سیاست کا مرکز و محور بن چکے۔ اہل سیاست اس پرگر ہیں لگاتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں ان کا اخلاقی وجود دھوپ میں رکھی برف کی طرح تحلیل ہو رہا ہے۔
اخلاقیات پامال کر دی گئیں۔ ویڈیوز اور آڈیوز اب ہمارے قومی موضوعات ہیں۔ پیمرا کے قوانین سے بے نیاز اودھم مچا ہے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔ کسی کو احساس نہیں نشریاتی اداروں پر یہ گفتگو لوگ گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ سن رہے ہیں۔ کوئی روکنے والا بھی نہیں۔
اس سال کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ اخلاقیات اب کسی کا مسئلہ نہیں رہا۔ ویڈیوز اور آڈیوز کی آمد پر کوئی سوال اٹھتا ہے نہ کسی کے اخلاقی وجود پر۔ کوئی وضاحت کرنا پسند کرتا ہے نہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا۔ سب مایا ہے۔
ایک پیج کا نہ رہنا اس سال کی ایک بڑی خبر ہے۔ خلیل خان اب فاختہ نہیں، بے پر کی اڑاتے پھررہے ہیں۔ آئین اور اس کی مبادیات سے بے پروا ہو کرعوام کی بجائے فوج اور عدلیہ سے مدد مانگی جاتی ہے۔ کسی کے نزدیک اس خلط مبحث کا عنوان سیاسی ہو سکتا ہے، حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ بھی اخلاقی بحران ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ کام پہلے نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اہل سیاست ایسا غیر آئینی مطالبہ یوں سر عام کبھی نہیں کرسکے تھے۔ یعنی اخلاقی وجود سے ایسی بے نیازی پہلے کبھی نہ تھی۔اب تو حجاب ہی اٹھ گئے۔ اب تو سیدھا مطالبہ ہے کہ عدلیہ اور فوج ہمیں اقتدار میں لائیں۔
معیشت آتش فشاں بن چکی لیکن اہل سیاست کا کھلنڈرا پن ختم نہیں ہو رہا۔ معیشت کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے اور حکمت عملی کے تحت ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دیوالیہ ہونے کی باتیں ایسے کی جا رہی ہیں گویا یہی مقصودو مطلوب ہو۔ اقتدار اور مفاد کی کشمکش میں حکومت اور ریاست کا فرق مٹا دیا جائے تو یہ بھی اصل میں سیاسی نہیں اخلاقی بحران ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سال سیلاب سے لوگ غرق ہوئے پڑے ہیں۔ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ اطراف میں المیے پھوٹے لیکن قومی سیاسی بیانیے میں اب سیلاب زدگان کا کہیں ذکر ہی نہیں۔ مال غنیمت کا جھگڑا اور سیاسی داؤ پیچ موضوع بحث ہیں۔ غفلت تو ہوتی تھی لیکن خلق خدا سے ایسی بے نیازی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔
دہشت گردی پھر سے سر اٹھا رہی ہے۔اسلام آباد میں بھی خود کش حملہ ہو چکا لیکن پارلیمان میں اس مسئلے پر آج تک بحث نہیں ہو سکی کہ خطے کی بدلتی صورت حال میں پاکستان کے تزویراتی چیلنج کیا ہیں؟ یہ بے نیازی بھی انتظامی نہیں اخلاقی بحران کی نشانی ہے۔
یہ درست ہے کہ سال کا آنا اور گزر جانا بس گردش دوراں کی جمع تقسیم ہے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ لیکن اس حقیقت کا انکار بھی ممکن نہیں کہ 2022 اخلاقی بحران کا سال تھا۔ یہ سال بے حجاب آیا ہے۔
رخصت ہونے والے سال نے اہل سیاست کے اخلاقی وجود کو گھائل کر دیا ہے۔نئے سال میں اہل سیاست کا سب سے بڑا چیلنج اسی وجود کا تحفظ ہو گا۔