شکارپور: پیشے سے اسلحہ فروش اور دل سے کہانی نویس

شکارپور میں اسلحہ کی دکان کے کہانیاں لکھنے والے مالک کا کہنا ہے کہ ’ہتھیار میرا کاروبار ہیں، میرا روزگار ہیں۔ اس سے میں کما کر اپنی زندگی چلاتا ہوں، لیکن کتابوں سے مجھے عشق ہے۔‘

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر شکارپور میں 76 سالہ اسلحہ ڈیلر آغا ثنا اللہ خان گذشتہ ماہ اپنی دکان پر کتابوں کے ڈھیروں کے سامنے بیٹھے تھے۔ ان کے اردگرد رائفلیں، پستول اور اسلحے کے دیگر لوازمات بھی سجے ہوئے تھے۔ 

یہ کتابوں کی دکان ہے یا اسلحے کی؟

شکارپور شہر کے تاریخی سات دروازوں میں سے ایک، لکھی در کے قریب قائم پٹھان آرمری میں خوش آمدید۔ یہاں ثنا اللہ خان گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے ہتھیار فروخت کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا اصل شوق کچھ اور ہے یعنی وہ مختصر کہانیاں اور سفرنامے لکھتے ہیں۔

آغا ثنا اللہ خان چار سندھی سفرناموں اور مختصر کہانیوں کے مجموعے ’غلطی‘ کے مصنف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی دکان پر آنے والے گاہک اکثر حیران رہ جاتے ہیں جب وہ انہیں کتابوں میں غرق دیکھتے ہیں۔

گاہکوں کی حیرت کا ذکر کرتے ہوئے ثنا اللہ خان نے ایک گاہک کو بقایا رقم واپس کی اور کہا کہ ’وہ آتے ہیں اور پوچھتے ہیں، ’ہتھیار بھی اور کتابیں بھی؟‘ میں کیا کروں؟ جب بھی فارغ ہوتا ہوں تو پڑھتا ہوں۔ پڑھنا چاہیے۔ صرف پڑھتا ہی نہیں، جناب، میں تو یہاں بیٹھ کر لکھتا بھی ہوں۔ یہی میری فطرت ہے۔‘

’ہتھیار میرا کاروبار ہیں، میرا روزگار ہیں۔ اس سے میں کما کر اپنی زندگی چلاتا ہوں،‘ انھوں نے وضاحت کی۔ ’لیکن کتابوں سے مجھے عشق ہے۔‘

’سفر کا شوق

ثنا اللہ خان، جن کے والد ایک سرکاری افسر تھے، نے 1990 کی دہائی کے آغاز میں شکارپور میں اپنی دکان قائم کی جہاں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے بچے امریکہ میں آباد ہیں۔

یہ شہر جو 17 ویں سے 19 ویں صدی کے درمیان وسط ایشیا اور برصغیر کو ملانے والا اہم تجارتی مرکز تھا، آج سنگین جرائم کے مسائل سے دوچار ہے۔ ضلع کے کچے کے علاقوں میں کئی ڈاکو گینگز سرگرم ہیں۔

ڈی آئی جی پولیس لاڑکانہ رینج ناصر آفتاب نے عرب نیوز کو بتایا کہ ڈاکوؤں کے خلاف جاری مسلح آپریشنز کے نتیجے میں شکارپور کی سکیورٹی صورت حال بہتر ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان آپریشنز کی وجہ سے منظم جرائم پیشہ گروہوں کا نیٹ ورک کمزور پڑا اور علاقے میں سکیورٹی کی صورت حال میں نمایاں بہتری آئی۔ لوگوں کا اعتماد بحال ہوا  اور ڈاکوؤں کے لیے دوبارہ منظم ہونا مشکل ہوگیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مسلسل کوششوں کے باعث شکارپور، کشمور اور آس پاس کے علاقوں میں دیرپا امن اب ایک حقیقت بنتا جارہا ہے۔‘

لیکن ثنا اللہ خان کے نزدیک ہتھیار اور پستول اب ’مجبوری بن گئے ہیں۔‘

’وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں امن و امان کا مسئلہ ایسا ہے کہ لوگ مجبوراً اپنے پاس اسلحہ رکھتے ہیں۔ حکومت بھی اجازت دیتی ہے، میرے پاس لائسنس ہے۔‘

لیکن اسلحے کے اس تاجر کا دل اصل میں کہانیوں اور سفرناموں میں لگا ہوا ہے اور اس شوق کے پیچھے ان کا جنون سیاحت کارفرما ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی کتابوں میں انھوں نے انڈیا کی مصروف گلیوں سے لے کر نیپال کے پرسکون مناظر، تھائی لینڈ کے رنگا رنگ بازاروں اور امریکہ کے وسیع شہروں تک اپنے سفر کی یادوں کو قلمبند کیا ہے۔

ثنا اللہ خان کے مطابق: ’جب میں پیدا ہوا تو سیاحت کا شوق میرے اندر موجود تھا۔ جب تھوڑی سمجھ بوجھ آئی تو سوچا کہ اب سفر کرنا چاہیے۔ میں اسلحے کے کاروبار میں آگیا لیکن سیر و سیاحت کا خیال میرے ذہن میں ہمیشہ اٹکا رہا۔‘

آغا ثنا اللہ بتاتے ہیں کہ انڈیا کے سفر، جن کا ذکر انہوں نے اپنے پہلے سفرنامے میں کیا، ان پر خاص طور پر گہرا اثر چھوڑ گئے۔ اس دوران وہ شکارپور سے نقل مکانی کرکے جانے والوں سے ملے اور ان کی مہمان نوازی اور مشترکہ تاریخ کا تجربہ کیا۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں وہاں ایک ایسے شخص سے ملا جو یہاں سے نقل مکانی کرکے گئے۔ گمن پنجابی کا تعلق شکارپور سے تھا۔ انہوں نے میری بہت خدمت کی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مہاجرین سے ملاقات ہوئی جنھوں نے میرا بے حد خیال رکھا۔‘

امریکہ، جہاں ثنا اللہ خان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں رہتی ہیں، سے ان کی دلچسپی اتنی بڑھی کہ انھوں نے وہاں کے دو سفرنامے تحریر کر دیے ہیں اور تیسرا سفرنامہ لکھنے میں مصروف ہیں۔

’یوں سمجھ لیں کہ میں نے پورا امریکہ گھوم لیا۔ نیویارک، واشنگٹن اور فلوریڈا کے تمام اہم شہروں میں جا چکا ہوں۔‘

 ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں مگر امریکی شہریت حاصل کرنے کی بجائے شکارپور میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ثنا اللہ خان دوسروں کے دل میں بھی مطالعے اور لکھنے کا شوق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک دوست کی درخواست پر تقریباً چار ہزار کتابیں مقامی لائبریری کو عطیہ کیں۔

اب ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے پیچھے ایک ایسی میراث چھوڑ جائیں جس کا تعلق الفاظ اور تحریر کے شوق سے ہو۔

انہوں نے ایک رائفل صاف کرتے ہوئے کہا: ’ابھی تو لوگ مجھے صرف اسلحے کے تاجر کے طور پر جانتے ہیں مگر میری خواہش ہے کہ ایک دن وہ آئے جب لوگ مجھے بطور سفرنامہ نگار زیادہ جانیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا