وائٹ ہاؤس نے اتوار کو کہا ہے کہ 50 سے زائد ممالک نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات کے لیے رابطہ کیا ہے تاکہ امریکی برآمدات پر عائد کیے گئے سخت محصولات میں نرمی کرائی جا سکے۔
اس صورت حال میں امریکہ کے تجارتی اتحادی ممالک ممکنہ نقصانات سے نمٹنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
بدھ کو رپبلکن صدر ٹرمپ نے اچانک دنیا بھر کے کئی ممالک پر محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد عالمی مارکیٹوں میں شدید مندی دیکھی گئی لیکن اس کے باوجود امریکی صدر بضد ہیں کہ ان کی پالیسی ’کبھی تبدیل نہیں ہوگی۔‘
تاہم محصولات کے اطلاق کے لیے الگ الگ تاریخیں مقرر کرنے سے بعض ممالک کے لیے مذاکرات کا راستہ ابھی بھی کھلا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ محصولات پر کسی جوابی کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کی نیشنل اکنامک کونسل کے سربراہ کیون ہیسٹ نے اتوار کو ٹیلی ویژن چینل اے بی سی کے پروگرام ’دِس ویک‘ میں امریکی تجارتی نمائندے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’50 سے زائد ممالک صدر ٹرمپ سے مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے رابطہ کر چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ممالک جانتے ہیں کہ محصولات کا سب سے زیادہ نقصان انہی کو ہو گا۔‘ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ان محصولات کے باعث امریکہ میں اشیا کی قیمتوں میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوگا۔
’میرے خیال میں امریکی صارفین پر اس کا کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے بھی این بی سی کے پروگرام ’میٹ دی پریس‘ میں بتایا کہ 50 ممالک رابطہ کر چکے ہیں۔
لیکن یہ پوچھے جانے پر کہ آیا ٹرمپ ان سے مذاکرات کریں گے یا نہیں تو بیسنٹ نے کہا کہ ’یہ فیصلہ صدر ٹرمپ ہی کریں گے۔‘
بیسنٹ کے بقول: ’اس وقت صدر نے اپنی انتہائی مضبوط پوزیشن بنا لی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ یہ ممالک کیا پیشکش کرتے ہیں اور ان کی پیشکش پر کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ کئی ممالک ’ایک عرصے سے غلط طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان معاملات کو چند دن یا ہفتے کے مذاکرات میں حل نہیں کیا جا سکتا۔‘
صدر ٹرمپ طویل عرصے سے اصرار کرتے آ رہے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک جو اپنی مصنوعات امریکہ میں فروخت کر رہے ہیں۔ وہ درحقیقت امریکی شہریوں کا استحصال کر رہے ہیں اور وہ محصولات کو اس ناانصافی کے خاتمے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
تاہم متعدد ماہرین معیشت خبردار کر چکے ہیں کہ یہ محصولات آخرکار صارفین کو منتقل ہوں گے اور امریکہ میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب تجارت اور صنعت کے حوالے سے جاری غیر یقینی صورت حال عالمی منڈیوں میں کئی روز سے بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہے۔