پاکستان جونئیر لیگ پی سی بی کا وہ منصوبہ تھا جس پر سب سے زیادہ تنقید خود پی سی بی ہی کر رہی ہے۔
اگرچہ پی سی بی کی سابقہ مینیجمنٹ اور سربراہ رمیز راجہ اسے مستقبل کا گیم چینجر کہتے تھے اور ان کے ہمنوا بھی اس کے گن گاتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ لیگ ایک اچھوتا منصوبہ اور پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہوگا۔
اس کے برعکس موجودہ چئیرمین نجم سیٹھی اور ان کے ہمنوا اسے ناکام ترین اور وسائل کا ضیاع قرار دے چکے ہیں۔
روایت کے مطابق نئی مینجمنٹ نے آتے ہی پرانی انتظامیہ کے کارنامے عیاں کرنا شروع کر دیے ہیں حالانکہ جن کی غلطیوں سے وہ لیگ ناکام تھی وہی اب نئی مینیجمنٹ کے دائیں بائیں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اس لیگ پر ایک ارب سے زائد خرچ کیا گیا۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ جونئیر لیگ کے کھلاڑیوں کو سینیئرٹیم کی طرح سہولتیں دی گئیں لیکن یہ منصوبہ اپنی قیمت وصول نہ کرسکا۔
اتنا مہنگا پروجیکٹ محض 19 کروڑ کی سپانسر شپ حاصل کرسکا۔ مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث اس کو میڈیا میں جگہ ملی اور نہ کرکٹ کے حلقوں میں توجہ۔
ادائیگیوں میں ’عدم شفافیت‘
جونئیر لیگ میں چھ ٹیمیں تشکیل دی گئیں تھیں جن میں 66 پاکستانی اور 24 غیر ملکی کھلاڑی کھیل رہے تھے۔
ہر کھلاڑی کے لیے 19 سال سے کم عمر ہونا ضروری تھا۔ تاہم کچھ ایسے کھلاڑی تھے جو پہلے ہی پاکستان انڈر 19 کھیل چکے تھے لیکن اکثریت ان کی تھی جنھیں ٹرائلز کی مدد سے منتخب کیا گیا تھا۔
کھلاڑیوں کو ملک کے تمام حصوں سے لیا گیا تھا اور مختلف شہروں کے نام سے ٹیمیں بنائی گئی تھیں۔
اس لیگ کا سب سے اہم حصہ لیجنڈز کا مینٹورز (استاد) بننا تھا۔ کرکٹ کے افق کے وہ چھ نامور لیجنڈز لیے گئے تھے جو شہرت کے آسمان پر آج بھی چمک رہے ہیں۔
شاہد آفریدی، ویوین رچرڈز، شعیب ملک، کولن منرو، ڈیرن سیمی اور عمران طاہر مینٹورز تھے جبکہ جاوید میاں داد اس لیگ کے آئیکون تھے۔
ان کے ساتھ عبدالرزاق، اعجاز احمد، عمران فرحت، مشتاق احمد، اعزاز چیمہ، عبدالرحمن، محمد سمیع، غلام علی اور کراچی کےمشہور کوچ مسرور احمد تھے۔
مینٹورز کو اس لیگ کے لیے ایک ایک کروڑ روپے دیے گئے جبکہ کوچز اور سپورٹ سٹاف کو بھی لاکھوں روپے دیے گئے۔
ہر ٹیم کےساتھ سات افراد کا ایک سپورٹ سٹاف بھی تھا جبکہ کمپیوٹر اینالسٹ اور ڈیجیٹل اینالائزر الگ تھے۔
ان سب کو بھی لاکھوں میں ادائیگی کی گئی۔ منصوبے کے اخراجات کے مطابق 44 کروڑ روپے صرف تنخواہوں کی مد میں دیے گئے۔
جو اتنے بڑے اور مہنگے سٹاف کے ہوتے ہوئے زیادہ نظر نہیں آتے کیوں کہ اکیلے ایک فرنچائز لاہور قلندرز پی ایس ایل کے 40 دنوں میں اس سے دگنی رقم سٹاف پر لگا دیتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جونئیر لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ ملکی کھلاڑیوں کو حوصلہ افزائی کے لیے ڈیلی الاؤنس دیا گیا۔
دیکھا جائے تو اس جونئیر لیگ منصوبے میں اخراجات کا تعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی ابتدائی تخمینہ لگایا گیا۔
فزیبلٹی رپورٹ نہ بننے کے باعث لیگ کے اخراجات آمدنی سے بڑھ گئے اور توازن نہ رہ سکا۔
موجودہ بورڈ کو ان تمام اخراجات کا فرانزک آڈٹ کرانا چاہئیے تاکہ پتہ چلے کتنی جعلی ادائیگی ہوئی اور مارکیٹ سے کتنی زیادہ قیمت ادا کی گئی۔
جونئیر کھلاڑیوں نے تو یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ انہیں ابھی تک فیس نہیں ملی تو پھر منصوبے کے اخراجات میں ان کے نام سے رسیدوں پر دستخط کس کے ہیں اور وہ پیسے کون لے گیا؟
کیا یہ پہلی دفعہ ہوا ہے ؟
جب پی ایس ایل شروع ہوئی تھی تو یہی سارے مسائل تھے۔ لیگ بغیر ابتدائی تخمینے کے شروع ہوئی اور اخراجات بڑھنےکے باعث لیگ دو سال نقصان میں رہی۔
فرنچائزز کو پہلے دو سال کے پیسے بھی تاخیر سے ملے۔ اگر اس وقت پی سی بی کا خزانہ بھرا ہوا نہ ہوتا تو لیگ وقت سے پہلے ہی مرجاتی۔ تاہم جب لیگ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو فائدہ دینے لگی اور آج ایک منافع بخش لیگ بن چکی ہے۔
اگر موجودہ بورڈ اس کو ختم نہ کرتا شاید جونیئر لیگ بھی دوسال کے بعد ایک منافع بخش سکیم بن جاتی۔
نجم سیٹھی ایک اچھے منتظم اور بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والے شخص ہیں ان کے دور میں پی سی بی نے خود کو کماؤپوت بنا دیا تھا اگر چاہتے تو اپنے مشیروں کی رائے کے برعکس اس جونئیر لیگ کو برقرار رکھتے اور ایک اعلی ترین منصوبے میں بدل سکتے تھے۔
جونئیر لیگ اگرچہ نقصان دہ منصوبہ تھا لیکن اس منصوبے کے اصل ثمرات شاہد آفریدی، جاوید میاں داد، ڈیرن سیمی، شعیب ملک اور ویوین رچرڈز تک ہی پہنچ پائے ہیں۔
مینٹورز نے تو اس لیگ سے کروڑوں روپے کما لیے لیکن وہ کھلاڑی جن کے لیے یہ لیگ شروع کی گئی تھی ابھی تک اس کے ثمرات سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
تاہم اس لیگ کے کچھ کھلاڑی تو قومی ٹیم کے قریب پہنچ گئے ہیں لیکن ابھی بھی بیسیوں ایسے ہیں جو اپنا ٹیلنٹ بڑے سٹیج پر دکھانے کے منتظر ہیں۔