’سکیورٹی خدشات‘: حکومت نے بی این پی کا کوئٹہ کی جانب مارچ روک دیا

حکومت بلوچستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ راستوں کو لوگوں کے تحفظ کے لیے بند کیا گیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے لکپاس کے مقام پر نو دن سے دھرنا جاری ہے (فوٹو/ بلوچستان نیشنل پارٹی)

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان اختر حسین لانگو نے اتوار کو بتایا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی زیر حراست خواتین کی رہائی کے لیے لکپاس کے مقام پر دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ تک جانے سے روکنے کے لیے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا ’لوگوں کو تحفظ‘ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے خواتین کی رہائی کے لیے 28 مارچ سے خضدار کے علاقے وڈھ سے شروع کیا گیا لانگ مارچ لکپاس کے مقام پر روک دیا گیا تھا جس کے بعد لانگ مارچ کے شرکا نے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں دھرنا دیا تھا۔

اختر حسین لانگو کے مطابق دھرنے کے شرکا کی جانب سے اتوار کو مستونگ سے کوئٹہ کی جانب مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’مارچ کے شرکا کے چاروں اطراف میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات ہے اور کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان تمام راستوں کو بند کیا گیا ہے۔

دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ ’راستوں کو لوگوں کے تحفظ کے لیے بند کیا گیا ہے۔‘

بلوچستان نیشنل پارٹی نے دھرنے کے شرکا نے کوئٹہ جانے کی اجازت نہ ملنے پر صوبے کے اکثر علاقوں میں بطور احتجاج قومی شاہراہوں کو بند کرنے کا کہا ہے۔

بی این پی دھرنے اور کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کے باعث بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور بعض دیگر اضلاع میں موبائل فون انٹرنیٹ سروس دو روز سے معطل ہے۔

موبائل انٹرنیٹ سروس تین روز کے تعطل کے بعد جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب بحال کی گئی تھی۔ تاہم 17 گھنٹے بعد ہفتے کی شام انٹرنیٹ سروس کو دوبارہ معطل کر دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے حکومتی ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انٹرنیٹ سروس کو سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے۔

اس سے قبل ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے پانچ اپریل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’سب جانتے ہیں جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد بی وائی سی نے دھرنے اور مظاہرے شروع  کیے اور گذشتہ روز دھرنے میں بی وائی سی کی قیادت نے ریاست مخالف تقریر کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تقریر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت کے دھرنے میں کی گئی۔ اس سارے معاملے پر غور کر کے کارروائی کی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سردار اختر جان مینگل سے دو بار حکومتی وفد نے ملاقات کی اور وزرا کے سامنے تین بڑے مطالبات رکھے گئے تھے جن میں سے ایک مطالبہ ماہ رنگ کی رہائی اور دوسرا مطالبہ ریڈ زون میں دھرنا دینے کا تھا۔‘

ترجمان بلوچستان حکومت کا کہنا تھا کہ ’ریڈ زون میں دھرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سردار اختر جان مینگل کو حکومت نے جو آفر دی آج بھی اس پر قائم ہے۔ کوئٹہ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘

دوسری جانب ہفتے کو ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی غزالہ گولہ اور وزیر تعلیم راحیلہ حمید درانی نے بھی سردار اختر مینگل سے ملاقات کی تھی۔

ملاقات کے بعد سردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ ’خواتین رکن اسمبلی میرے پاس آئی تھیں،  ہم نے احترام کے ساتھ ان کے سامنے اپنی گرفتار خواتین کی رہائی کا مطالبہ رکھا، ہم نے بتایا کہ اگر ہمارا مطالبہ نہ مانا گیا تو ہر صورت کوئٹہ کی جانب مارچ کریں گے۔‘

سردار اختر مینگل نے پانچ اپریل کو میڈیا کو بتایا کہ ’سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے اپنا مطالبہ ان کے سامنے بھی رکھا جس پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے معاملہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ اٹھانے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن تاحال ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان