کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر 14 جنوری کو محفوظ کیا گیا فیصلہ پیر کو سنایا۔
پانچ سال بعد سنائے جانے والے اس فیصلے میں عدالت نے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت دیگر کو بری کر دیا۔ بری ہونے والے ملزمان میں ڈی ایس پی قمر احمد، امان اللہ مروت اور دیگر شامل ہیں۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پراسیکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کو جنوری 2017 میں کراچی میں مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے پولیس مقابلے میں چار مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، جن میں سے ایک نقیب اللہ محسود بھی تھے۔
قتل کے بعد سوشل میڈیا پر نقیب اللّٰہ کے حوالے سے مہم چلائی گئی اور میڈیا پر بھی پروگرامز کیے گئے جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ بھی اسی واقعے کے بعد منظر عام پر آئی۔
بعد ازاں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار نے اس معاملے کا نوٹس لیا تھا۔
نقیب اللہ قتل کیس کا مقدمہ 23 جنوری 2018 کو درج کیا گیا تھا جس میں 51 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
اس حوالے سے سندھ پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق راؤ انوار نے 25 جولائی 2011 سے لے کر 19 جنوری 2018 تک کُل 192 پولیس مقابلے کئے جن میں نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔
پس منظر
نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود نے ایک ایف آئی آر بھی درج کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’تین جنوری 2018 کو سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب اللہ اور دیگر دو افراد حضرت علی اور قاسم کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ چھ جنوری کو حضرت علی اور قاسم کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن نقیب اللہ کو قید رکھا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد خان محسود (ان کا اب اتقال ہوچکا ہے) نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’17 جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔‘
عدالت نے راؤ انوار اور دیگر ملزمان پر 25 مارچ 2019 کو فرد جرم عائد کی تھی اور ملزمان کے خلاف 60 گواہان پیش ہوئے تھے۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے خود نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود سے ملاقات کی تھی اور انہیں انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا تھا۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ناصرف محمد خان محسود کا انتقال ہو گیا بلکہ راؤ انوار کے خلاف بیان دینے والے اہلکار بھی اپنے بیانات سے انکاری ہو گئے۔