سکالرشپس پر جانے والے 12 اساتذہ وطن نہیں لوٹے: جامعہ پنجاب

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد نے کہا ہے کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے سکالر شپس لینے والے 12 اساتذہ فرار ہو گئے ہیں، جن کے خلاف جامعہ ایف آئی اے کو خط لکھے گی۔

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق: ’بیرون ملک پڑھنے کے لیے گرانٹ دیتے ہوئے ایک معاہدہ طے ہوتا ہے جس کے مطابق پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اساتذہ وطن واپس آئیں گے اور پانچ سال تک یونیورسٹی میں خدمات انجام دیں گے۔‘ (پنجاب یونیورسٹی/ ویب سائٹ)

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد نے کہا ہے کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے سکالر شپس لینے والے 12 اساتذہ فرار ہو گئے ہیں، جن کے خلاف جامعہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو خط لکھے گی۔

خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ چند برسوں میں یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور کچھ کو پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے سکالر شپ دیے گئے جن کی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے۔

’یہ اساتذہ ایک انتہائی سخت مرحلے سے گزر کر بیرون ممالک کی ٹاپ یونیورسٹیز مں پی ایچ ڈی کے لیے چنے جاتے ہیں اور صرف انہیں سکالر شپ ملتا ہے جو تعلیمی اعتبار سے بہترین ہوتے ہیں۔‘

خرم کے مطابق: ’مختلف سالوں میں 56 اساتذہ کو مختلف مضامین میں بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے کے لیے کروڑوں کی گرانٹ ملی، یہ اساتذہ مختلف ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک شامل ہیں، گئے، وہاں کی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کی۔

’ان میں سے 12 اساتذہ ایسے ہیں جو پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی واپس نہیں آئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خرم نے مزید بتایا کہ ’یہ اساتذہ اس وقت کہاں ہیں اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کو علم نہیں ہے اس لیے مفرور اساتذہ سے سکالر شپ پر  خرچ کردہ اخراجات کی ریکوری کے لیے پنجاب یونیورسٹی ایف آئی اے کو خط لکھے گی۔

’ساتھ ہی ساتھ ان مفرور اساتذہ کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ بلاک کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی اور ایچ ای سی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ کو آئندہ ہفتے خط لکھے گی۔‘

خرم نے بتایا کہ ’ان 12 اساتذہ میں سے سات اساتذہ کو ایچ ای سی کی جانب سے گرانٹ دی گئی جبکہ پانچ کو پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے گرانٹ ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب بیرون ملک پڑھنے کے لیے گرانٹ دی جاتی ہے تو ایک معاہدہ طے ہوتا ہے کہ بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اساتذہ وطن واپس آئیں گے اور پانچ سال تک یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دیں گے، لیکن یہ 12 اساتذہ پی ایچ ڈی کے بعد واپس نہیں آئے۔‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب یونیورسٹی اساتذہ پی ایچ ڈی کے لیے باہر سکالر شپ پر بھیجے جاتے ہیں تو اس دوران ان کے خاندان کو ان کی پوری تنخواہ بغیر الاؤنسسز کے ادا کی جاتی رہتی ہے۔

’ان 12 اساتذہ کو بھی سکالر شپ کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ ملتی رہی لیکن انہوں نے واپس آکر یونیورسٹی جوائن نہیں کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سکالر شپ دیتے ہوئے یہ معاہدہ بھی ہوتا ہے کہ اگر پی ایچ ڈی کرنے والا واپس نہیں آتا تو وہ خود پر خرچ ہونے والی تمام رقم ایچ ای سی یا پنجاب یونیورسٹی کو واپس کر دے، اب چونکہ اساتذہ نے ڈیوٹی جوائن نہیں کی اس لیے ان پر واجب ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق ان پر خرچ کیے گئے کروڑوں روپے واپس کر دیں جو انہوں نے اب تک نہیں کیے۔‘

یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ ’پنجاب یونیورسٹی سینٹر فار جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) سینٹر کی ایک خاتون استاد نے ستر لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔ جی آئی ایس سینٹر کے ایک استاد نے 1 کروڑ 40 لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز کی خاتون استاد نے ایک کروڑ روپے دینے ہیں۔

’انسٹیٹیوٹ آف مائیکرو بیالوجی اینڈ مالیکیولر جنیٹکس (ایم ایم جی) کی خاتون استاد نے  90 لاکھ روپے، انسٹیٹیوٹ آف کوالٹی اینڈ ٹیکنالوجی مینجمنٹ (آئی کیو ٹی ایم) کے ایک استاد نے 84 لاکھ روپے، ہیلی کالج آف کامرس کی خاتون استاد نے ایک کروڑ 61 لاکھ روپے، سنٹر فار کول ٹیکنالوجی کے استاد نے  72 لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔‘

خرم کے مطابق ’کالج آف انجینیئرنگ کے استاد نے 90 لاکھ روپے، سینٹر فار جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے استاد نے  72 لاکھ روپے، پنجاب یونیورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (پی یو سی آئی ٹی) کی خاتون استاد نے 60 لاکھ روپے، ایڈمنسٹریٹو سائنسز کی خاتون استاد نے ایک کروڑ روپے جبکہ ایک استاد نے ایک کروڑ 16 لاکھ روپے دینے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی نے ان مفرور اساتذہ کو یونیورسٹی سروس سے برخاست بھی کر دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس