غزہ میں امدادی کارکنوں کا مارا جانا پیشہ ورانہ ناکامی، نائب کمانڈر برطرف: اسرائیل

گذشتہ ماہ غزہ میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں 15 فلسطینی طبی اہلکاروں کے قتل کی اسرائیلی تحقیقات میں اتوار کو بتایا گیا کہ اس واقعے میں ’پیشہ ورانہ ناکامیوں‘ کی ایک کڑی سامنے آئی ہے، اور ایک نائب کمانڈر کو برطرف کر دیا گیا۔

پانچ اپریل 2025 کو فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی جاری کردہ ویڈیو سے لی گئی اس تصویر میں ایک فائر ٹرک اور ریسکیورز کو ایک گاڑی کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (فلسطینی ہلال احمر / اے ایف پی)

گذشتہ ماہ غزہ میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں 15 فلسطینی طبی اہلکاروں کے قتل کی اسرائیلی تحقیقات میں اتوار کو بتایا گیا کہ اس واقعے میں ’پیشہ ورانہ ناکامیوں‘ کی ایک کڑی سامنے آئی ہے، اور ایک نائب کمانڈر کو برطرف کر دیا گیا۔

فلسطینی طبی عملے کی موت کا سبب بننے والے فائرنگ کے اس واقعے پر عالمی برادری نے شدید غصے کا اظہار کیا۔ کچھ حلقوں نے ان اموات کو جنگی جرم قرار دیا۔

 طبی کارکنوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ نے اسے گذشتہ آٹھ برسوں میں اپنے عملے پر ہونے والا سب سے زیادہ جان لیوا حملہ قرار دیا۔

ابتدا میں اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ جب فوجیوں نے فائرنگ کی تو طبی اہلکاروں کی گاڑیوں پر ایمرجنسی سگنل نہیں تھے، لیکن بعد میں وہ اس دعوے سے پیچھے ہٹ گیا۔ ایک طبی اہلکار کے موبائل فون سے برآمد ہونے والی ویڈیو نے اسرائیل کے ابتدائی مؤقف کی تردید کر دی۔ فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ ایمبولینس گاڑیوں پر روشنیاں جل رہی تھیں اور لوگو واضح تھے، جب وہ ایک دوسری ایمبولینس کی مدد کو پہنچیں جو پہلے ہی فائرنگ کی زد میں آ چکی تھی۔

فوجی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ نائب بٹالین کمانڈر نے غلط طور پر یہ سمجھ لیا کہ تمام ایمبولینس گاڑیاں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’رات کے وقت کم روشنی میں‘ کام کرتے ہوئے نائب کمانڈر کو محسوس ہوا کہ اس کے فوجی خطرے میں ہیں۔ ایسا اس وقت ہوا جب ایمبولینس گاڑیاں تیزی سے ان کی طرف بڑھیں اور طبی اہلکار زخمیوں کو دیکھنے کے لیے دوڑ کر باہر نکلے۔ فوج نے کہا کہ رات کے وقت دیکھنے کے قابل ڈرونز اور عینکوں میں ایمبولینس گاڑیوں کی چمکتی ہوئی لائٹیں کم نظر آئیں۔

اسرائیلی فوج نے ایمبولینس گاڑیوں پر فوراً گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو کر دی جو پانچ منٹ سے زائد جاری رہی۔ درمیان میں چند لمحے کے وقفے بھی آئے۔ چند منٹ بعد، فوجیوں نے ایک اقوام متحدہ کی گاڑی پر بھی فائرنگ کر دی جو وہاں آ کر رکی۔
بعد ازاں طبی عملے کے ارکان کو اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔

23 مارچ کی صبح سے پہلے، جنوبی غزہ کے شہر رفح کے علاقے تل السلطان میں کارروائیاں کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ میں آٹھ ریڈ کریسنٹ اہلکار، چھ سول ڈیفنس کارکن اور اقوام متحدہ کا ایک ملازم مارا گئے۔ فوج نے لاشوں اور تباہ شدہ گاڑیوں کو بلڈوزر کے ذریعے روند کر اجتماعی قبر میں دفن کر دیا۔ اقوام متحدہ اور امدادی کارکن ایک ہفتے بعد ہی موقع پر پہنچ سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب الجزیرہ ٹیلی ویژن کے مطابق غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (اوچا) کے سربراہ ہیں جوناتھن وٹل نے گذشتہ ماہ فلسطینی پیرا میڈیکس کے قتل کے بارے میں اسرائیل کے اس دعوے کہ ’ قتل کے الزامات کی تائید کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں‘ پر ردعمل میں کہا کہ ’جب تک محاسبہ نہیں ہوگا، ہم ظلم و ستم کو ہوتے دیکھتے رہیں گے، اور وہ اصول و ضوابط جو ہم سب کی حفاظت کے لیے بنائے گئے، وہ ٹوٹتے چلے جائیں گے۔‘

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’غزہ میں بہت سے شہری، بشمول امدادی کارکن، مارے جا چکے ہیں۔ ان کی کہانیاں سب کی نظروں تک نہیں پہنچیں۔‘

انسانی حقوق کے وکیل جیفری نائس کا کہنا ہے کہ غزہ میں 15 فلسطینی پیرا میڈیکس اور امدادی کارکنوں کے قتل کی اسرائیلی تحقیقات کے نتائج اسرائیلی فوج کے رویے اور تحقیقات کے عمل کی جامعیت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ’یہ ایک خاصی حیران کن دستاویز ہے۔ یہ ایسی دستاویز بھی ہے جو بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے، جن کے جواب دینا میرے خیال میں (اسرائیلی فوج) کے لیے مشکل ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مثال کے طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ ان میں سے چھ افراد حماس کے تھے۔ غالباً حماس کے فعال (عسکری) ارکان، نہ کہ وہ لوگ جو کسی نہ کسی انداز میں حماس سے منسلک ہوں۔ اس دعوے کے حق میں کسی قسم کا کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا