مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں اور ضیا محی الدین کبڈی کھیلا کرتے تھے، ضیا صاحب نے سرخ رنگ کاجانگیہ زیب تن کیا ہوتا اور وہ منہ سے ’کوڈی کوڈی‘ کی آوازیں نکال کر مجھ پر لپکا کرتے۔
ویسے تو وہ ہر شعبے میں ہی کمال دکھانے کی کوشش کرتے تھے مگر اس کھیل میں اکثر مجھ سے مات کھا جاتے تھے اور برملا اعتراف کرتے کہ برصغیر پاک و ہند میں مجھ سے بہتر کبڈی کھیلنے والا ابھی پیدا نہیں ہوا۔
ظاہر ہے کہ یہ ان کا بڑا پن تھا ورنہ بندہ کس قابل، البتہ یہ بات بتانے میں اب کوئی حرج نہیں کہ اکثر زبان و بیان کے مسائل میں وہ اس فقیر سے رہنمائی لیتے تھے اور کبھی نہیں شرماتے تھے۔ کہتے تھے بھلا استاد اور ڈاکٹر کے سامنے کیسی شرم!
لوگ ان کے مخصوص لہجے اور اردو اور انگریزی زبان کے درست تلفظ کی مثال دیتے ہیں مگر یہ بات صرف ان کے قریبی رفقا، جن میں سے اکثر وفات پا چکے ہیں، کے علم میں ہے کہ ضیا صاحب کو جب بھی کسی لفظ کا صحیح تلفظ معلوم کرنا ہوتا تو لغت کھولنے کی بجائے ہمیشہ اس فقیر کو فون کر کے پوچھتے۔
ایک روز رات کے دو بجے میرے فون کی گھنٹی بجی، دوسری جانب ضیا صاحب تھے، میں نے کہا حضرت خیریت ہے، فرمانے لگے ایک ترکیب ذہن میں اٹک گئی ہے، سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کا کیا تلفظ ہے، سوچا آپ سے پوچھ لوں۔
میں نے کہا بسم اللہ۔ کہنے لگے ’کششِ انابیب شعری‘ کا کیا تلفظ ہے، نیز انابیب الف سے ہے یا ع سے؟ میں دل میں ہنسا کہ کیسے اللہ لوگ ہیں، اتنی سی بات کے لیے پریشان ہو جاتے ہیں۔
میں نے کہا ضیا صاحب ویسے تو انابیب الف سے ہے مگر آج کل جب تک کسی لفظ کو ع سے نہ لکھا جائے رعب نہیں پڑتا، اور آپ نے لفظ شعری بھی غلط بولا ہے، ش کے اوپر زبر ہے زیر نہیں۔
اس کے بعد فون پر مجھے ان کے رونے کی آواز سنائی دی۔ کہنے لگے کہ کل کو اگر آپ نہ رہے تو میں کس سے رہنمائی لوں گا۔ خدا کے کام دیکھیں کہ ضیا صاحب خود دنیا سے چلے گئے۔
لوگ ان کی اس بات سے بھی بے حد متاثر ہیں کہ انہیں شیکسپیئر کے مکالمے زبانی یاد تھے۔ میرے سامنے جب بھی یہ بات ہوتی ہے تو میں منہ چھپا کر ہنسنے لگتا ہوں، ظاہر ان کا پردہ منظور ہے۔
اب جبکہ وہ دنیا سے پردہ کر چکے ہیں تو یہ بتانے میں چنداں حرج نہیں کہ یہ مکالمے میں نے ہی انہیں رٹائے تھے۔
شروع شروع میں انہیں دقت ہوئی تھی مگر جب انہوں نے مجھے فر فر شیکسپیئر کے مکالمے بولتے ہوئے دیکھا تو بڑی لجاجت سے کہنے لگے کہ یہ فن مجھے بھی سکھا دو، بہت کوشش کرتا ہوں مگر یاد نہیں ہو پاتے، یاد ہو جائیں تو مطلب سمجھ نہیں آتا۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ مطلب سمجھنے کی کیا ضرورت ہے، آپ بس چند مکالموں کو رٹا لگا لیں، کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
ایسا ہی ہوا، میں نے انہیں چند مشہور مکالمے رٹا دیے، آج تک کسی نے ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کی کہ ضیا صاحب اس کا ترجمہ بھی کر دیں۔
اب کچھ ذکر امجد اسلام امجد صاحب کا بھی ہو جائے۔ بے شک انہیں ٹی وی ڈراموں اور شاعری کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا مگر اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود اور فقط ریکارڈ کی درستگی کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ امجد صاحب نے بھی اس فقیر کی وجہ سے ہی ادب کے شعبے میں نام کمایا۔
ان کے شاہکار ڈرامے وارث کے بارے میں تو سب لوگ ہی جانتے ہیں مگر یہ بات کسی کے علم میں نہیں کہ وارث کا پہلا ڈرافٹ انہوں نے مجھ سے درست کروایا تھا۔ میں نے سرخ قلم سے اس کی درستگی کی تھی جس کے بعد اصل متن فقط دس فیصد ہی باقی رہ گیا تھا۔
کچھ حاسدین میرے بارے میں یہ ہزرہ سرائی کرتے ہیں کہ میرے اپنے ڈرامے مقبولیت حاصل نہیں کر سکے، اب بندہ انہیں کیا سمجھائے کہ جب اس فقیر نے اپنی ساری توانائی وارث، دن، وقت، سمندر اور رات پر لگا دی تو اپنے لیے کیا خاک بچنا تھا۔
ویسے بھی میں ان باتوں کی پروا نہیں کرتا، میرے استاد جناب شوکی ڈینٹر ’مرحوم‘ فرمایا کرتے تھے کہ حسد کرنے والا اصل میں اپنی ذات پر ایسا ڈینٹ لگاتا ہے جو دور سے پکڑا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ آپ کی صفاں والا چوک میں ڈینٹنگ پینٹنگ کی دکان تھی اور آپ ’سوکھا ڈینٹ‘ نکالنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔
بات امجد صاحب کی ہورہی تھی، میں وہ دن کبھی نہیں بھول پاؤں گا جب وہ میرے پاس آئے، کچھ پریشان لگ رہے تھے، فرمانے لگے کہ آج کل آمد بالکل نہیں ہو رہی، کئی دن سے نہ کوئی غزل کہی ہے اور نہ نظم ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے انہیں تسلی دی کہ اکثر بڑے ادیب اس مشکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آپ ایک ماہ بعد تشریف لائیں، آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ایک ماہ بعد آئے تو میں نے ان کے ہاتھ میں چند نظمیں تھما دیں جن میں ’اگر کبھی میری یاد آئے، سیلف میڈ اور محبت ایسا دریا ہے‘ سمیت کئی نظمیں تھیں۔ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگے، میں نے کہا کہ یہ میری طرف سے ہدیہ سمجھ کر رکھ لیں، انہوں نے فرط جذبات سے میرے ہاتھ چوم لیے۔
اصل میں ادیب کو تحریک ہی تو چاہیے ہوتی ہے سو وہ ان نظموں سے انہیں مل گئی، پھر انہوں نے خوب جم کر شاعری کی، کبھی کبھار اصلاح کے لیے مجھے اپنی غزلیں اور نظمیں بھیج دیا کرتے تھے، میں وزن اور زبان کی غلطیاں درست کر دیتا تھا مگر اس انداز میں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
اکثر نجی محفلوں میں، جس میں ہمارے علاوہ کوئی تیسرا شخص نہ ہوتا، امجد صاحب نے کئی مرتبہ کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی شاعری اور ڈراموں کی مقبولیت میں مجھ فقیر کا ہاتھ تھا۔ بڑے آدمی کی یہی نشانی ہوتی ہے۔
بڑے آدمی سے یاد آیا کہ اپنےاستاد شوکی ڈینٹر کی ورکشاپ آج کل یہ فقیر چلا رہا ہے، اپنی گاڑی کا تسلی بخش کام کروانے کے لیے بلا جھجھک ہم سے رجوع فرمائیں، شاعر اور ادیب خواتین کے لیے 20 جبکہ حضرات کے لیے 10 فیصد خصوصی رعایت ہے۔
کالم کی دُم: قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ طنزیہ تحریر دراصل ان مضامین کے رد عمل میں لکھی گئی ہے جو امجد صاحب اور ضیا صاحب کی وفات کے بعد ان کی یاد میں لکھے گئے اور جن میں لکھنے والے نے وفات شدگان سے زیادہ اپنی بڑائی بیان کی۔ اگر کسی لکھنے والے کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں سمجھوں گا محنت وصول ہوگئی۔