عمر صفدر برطانوی نژاد پاکستانی ہیں جو کئی سالوں سے یہاں ایکسپورٹ اور رئیل سٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
وہ پچھلے چار سالوں سے آئی ایم ایف پروگرام کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر مرتبہ لگتا ہے کہ اب سخت فیصلے لے لیے گئے ہیں اور آئی ایم ایف مزید مطالبات نہیں کرے گا لیکن ہر مرتبہ نیا مطالبہ سامنے آ جاتا ہے جس سے غیر یقینی صورت حال بڑھی ہے اور میرے دونوں کاروبار بند ہونے کے قریب ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات مان لیے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب آئی ایم ایف کی تسلی ہو جائے گی یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آئی ایم ایف اب مزید نئی شرائط سامنے رکھ دے گا۔
کرنسی ایکسچیبج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے مطالبات اور دعوے سمجھ سے بالاتر ہیں۔
’ایک طرف آئی ایم ایف پاکستان سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتا ہے اور دوسری طرف مہنگائی کم کرنے پر زور دیتا ہے۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ بجلی مہنگی ہونے سے مہنگائی میں کمی کیسے ہو سکتی ہے؟ آئی ایم ایف یہ گر بھی سکھائے۔
’ایک طرف ڈالر کو پاکستان افغان بارڈر ریٹ کے مطابق کھلا چھوڑنے کا مطالبہ کرتا ہے اور دوسری طرف منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا کہتا ہے۔
’یہ دونوں مطالبات ایک ہی وقت میں کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں؟ ڈالر ریٹ کو پاک افغان بارڈر ریٹ یا گرے مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر کا ریٹ افغانستان کی وزرات خزانہ طے کرے گی۔‘
پاکستان میں ڈالر ریٹ کچھ بھی ہو افغانستان اس سے 20 سے 25 روپے اوپر ہی آفر کرتا ہے۔ جب ڈالر 225 پر تھا تو افغانستان میں 250 کا ریٹ ہو گیا۔
جب پاکستان میں 250 کا ریٹ ہوا تو افغانستان میں 270 کا ریٹ ہو گیا۔ جب پاکستان میں 270 کا ریٹ ہوا تو افغانستان میں 295 میں خریدا گیا۔
اب پاکستان میں 279 کا ریٹ ہوا ہے تو افغانستان میں 310 روپے کا ڈالر خریدا جا رہا ہے۔ یہ تو نہ رکنے والا سلسلہ ہے اور اس میں پاکستان کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ ایک طرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف چار ارب ڈالر کی درآمدات کلیئر کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
اگر ڈالر درآمدات کلیئر کرنے میں خرچ ہو جائیں گے تو زرمبادلہ کے ذخائر کیسے بڑھیں گے۔ اگر شرح سود بڑھائی جائے گی اور امپورٹ مہنگی گر دی جائے گی تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
جب بجلی، گیس اور خام مال مہنگا ملے گا تو برآمدات کے آرڈر پاکستان کو نہیں بلکہ دوسرے ممالک کو ملیں گے اور ڈالر پاکستان نہیں آئیں گے۔
ایک طرف مطالبہ کیا جاتا ہے کہ شرح سود بڑھائی جائے اور دوسری طرف اعتراض کیا جاتا ہے کہ سود کی مد میں ادائیگیاں کرنے سے خسارے کیوں بڑھ رہے ہیں، انھیں کم کیا جائے۔
نیا مطالبہ یہ ہے کہ دوست ممالک تحریری ضمانت دیں کہ وہ پاکستان کو قرض دیں گے۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے کہا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف معیشت ٹھیک کرنے کی بجائے مکڑی کا جال ثابت ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف پہلے بجلی اور ڈالر ریٹ بڑھاتا ہے جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے چونکہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اس لیے شرح سود بھی بڑھائی جائے جس سے انڈسٹری بند ہوتی ہے، برآمدات کم ہوتی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں۔
پھر کہا جاتا ہے کہ ملک قرض ادا کرنے کے قابل نہیں رہا اور آخر میں ملک کو ڈیفالٹ ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ ملک کو آگے بڑھنے کا ایک موقع بھی فراہم نہیں کیا جا رہا۔
ان حالات میں کسی بھی ملک کے لیے ایک سہارا دوست ممالک ہوتے ہیں لیکن مبینہ طور پر آئی ایم ایف نے دوست ممالک پر بھی دباؤ ڈال رکھا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں ہوتیں پاکستان کو کوئی قرض نہ دیا جائے۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے کہا حالات وزرات خزانہ کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کو خود رحم آ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ ہمارے حالات تو انھیں منانے والے نہیں۔
آئی ایم ایف ڈیمانڈز نہیں کر رہا بلکہ یہ پاکستان کا معاہدہ ہے جسے پورا کرنے کے لیے وہ اصرار کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر پرائمری خسارے کو پرائمری سرپلس میں لانے کا معاہدہ کیا گیا ہے تو حکومت کو کسی بھی قیمت پر اسے پورا کرنا ہے۔
آئی ایم ایف نے کب کہا کہ بجلی کی قیمتیں بڑھائیں۔ وہ کہتا ہے کہ بجلی کا نقصان چوری روک کر پورا کریں اور اگر آپ اپاہج ہیں تو ریٹ بڑھائیں۔ اب ان کے آگے کھائی اور پیچھے سمندر ہے۔
لاہور چیمبر آف کامرس انڈسڑی پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان صاحب کے مطابق شرح سود بڑھانے کا فیصلہ غلط ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں 70 فیصد لوگوں نے گھر مورٹگیج کروائے ہوتے ہیں۔
وہاں شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کم ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں شرح سود بڑھانے سے انڈسٹری کو فرق پڑے گا کیونکہ یہاں بینکوں سے قرض صرف انڈسٹری ہی لیتی ہے۔
پاکستان میں عام شخص بینکوں سے قرض نہیں لیتا۔ آئی ایم ایف کے مطالبات بھی غلط ہیں اور ہماری حرکتیں بھی درست نہیں۔ ہم قرض ملک چلانے کے لیے نہیں بلکہ عیاشی کرنے کے لیے لیتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی تسلی اس وقت ہو گی جب اسحاق ڈار صاحب یہ مانیں گے کہ پاکستانی معیشت کے فیصلے سیاسی کی بجائے معاشی بنیادوں پر کرنے ہیں۔
حالات کے پیش نظر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ موجودہ حالات میں پاکستان جیسے ملک کا غربت سے نکلنا، قرضوں کا بوجھ کم کرنا اور آمدن بڑھانا تقریباً ناممکن ہے لہذا آئی ایم ایف کی تسلی نہیں ہوگی بلکہ ملک کے حالات مزید خراب ہوں گے۔