بین الااقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے نمائندہ وفد کے دورہ پاکستان کے آخری دن (جمعرات کو) حکومت پاکستان اور ادارے کے درمیان مذاکرات ختم ہو گئے تاہم سٹاف کی سطح پر معاہدہ نہیں ہو سکا۔
سیکریٹری خزانہ حامد یعقوب نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ آئی ایم ایف مشن نے سٹاف کی سطح پر معاہدے کے لیے مزید وقت مانگا ہے اور واشنگٹن سے منظوری کے بعد معاہدہ ہو گا۔
آئی ایم ایف نے جمعے کو جاری ایک اعلامیے میں کہا کہ اس کی پاکستان کی اہم ترجیحات میں مستقل ریونیو اقدامات کے ساتھ مالیاتی صورت حال کو مضبوط بنانا اور ہدف کے بغیر سبسڈیز میں کمی شامل ہے۔
آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے جمعے کو جاری اعلامیے میں مزید کہا کہ پاکستان کے لیے معاشی استحکام کو کامیابی سے بحال کرنے اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کی خاطر حکومتی شراکت داروں کی جانب سے پرعزم مالی معاونت کے ساتھ ساتھ پالیسی اقدامات کا بروقت اور فیصلہ کن نفاذ ضروری ہے۔
مشن کے 10 روزہ دورہ پاکستان کے اختتام پر جاری ہونے والے بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے عزم کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ اقدامات ’میکرو اکنامک استحکام کے تحفظ‘ کے لیے ضروری ہیں۔
انہوں نے تعمیری بات چیت کے لیے پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کیا۔
پورٹر نے مزید کہا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ادائیگی کے ’ملکی اور بیرونی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے پالیسی اقدامات‘ پر بات چیت کے دوران پیش رفت ہوئی۔
آئی ایم ایف مشن کے سربراہ کا کہنا تھا ’اہم ترجیحات میں مستقل آمدنی کے اقدامات کے ساتھ مالیاتی پوزیشن کو مضبوط بنانا اور غیر ہدف شدہ سبسڈیز میں کمی، سب سے زیادہ کمزور اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے سماجی تحفظ کو بڑھانا شامل ہے۔‘
ان کے بقول: ’پاکستان کے لیے زر مبادلہ کی کمی کو بتدریج ختم کرنے کے لیے زر مبادلہ کی شرح کو مارکیٹ میں طے کرنے کی اجازت دینا اور گردشی قرضے کو مزید بڑھنے سے روک کر اور توانائی کے شعبے کو قابل عمل بنا کر توانائی کی فراہمی کو بڑھانا ضروری ہے۔‘
پورٹر نے کہا: ’ان پالیسیوں کے بروقت اور فیصلہ کن نفاذ کے ساتھ ساتھ حکومتی شراکت داروں کی پرعزم مالی معاونت پاکستان کے لیے میکرو اکنامک استحکام کو کامیابی کے ساتھ دوبارہ حاصل کرنے اور اس کی پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے اہم ہے۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ آنے والے دنوں میں پالیسیوں پر عمل درآمد کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے سے متعلق ورچوئل بات چیت جاری رہے گی۔
آئی ایم ایف کا وفد گذشتہ ہفتے اسلام آباد پہنچا تھا تاکہ قرضے کے لیے ان شرائط پر بات چیت کر سکے جنہیں وزیراعظم شہباز شریف نے ’تصور سے بالاتر‘ قرار دیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق سیاسی افراتفری اور بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورت حال کے درمیان بھاری بیرونی قرض ادا کرنے کی کوشش سے دوچار پاکستان کی معیشت شدید مشکلات اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ ’مذاکرات سے متعلق آج اچھی خبر دیں گے۔‘
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ کم ٹیکس کی سطح کو بڑھایا جائے، برآمدی شعبے کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے اور پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں پر مزید اضافہ کیا جائے۔
آئی ایم ایف کا پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ دوست ممالک مثلاً سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سمیت عالمی بینک سے مزید مدد کی ضمانت کے طور پر بینک میں امریکی ڈالر رکھےں۔
وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے بدھ کو مقامی میڈیا کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف سے ’بات چیت میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں۔ گذشتہ 10 دنوں میں تفصیلی اور بھرپور بات چیت ہوئی۔‘
’مجھے پوری امید ہے کہ یہ مذاکرات کامیابی کے ساتھ ختم ہوں گے۔‘
معاشی تجزیہ کار اور دارالحکومت اسلام آباد میں عالمی بینک کے سابق مشیر عابد حسن نے کہا ’یہ صاف ظاہر ہے کہ تھوڑے دباؤ کے باوجود حکومت جو کچھ کرنے کو تیار ہے، آئی ایم ایف اس سے کہیں زیادہ مانگ رہا ہے۔
’دونوں فریق دوسرے کی جانب سے نرمی دکھائی جانے کے منتظر ہیں۔‘
دباؤ کے سامنے جھکاو
اے ایف پی کے مطاب برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔
توانائی کے عالمی بحران اور ملک کے ایک تہائی حصے کو ڈبو دینے والے سیلاب کی وجہ سے یہ نقصان مزید بڑھ گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاشی دیوالیہ پن کے خدشات کے پیش نظر اسلام آباد نے حالیہ ہفتوں میں دباؤ کے سامنے جھکنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے نمائندہ وفد نے آخری لمحات میں دورہ کیا۔
حکومت نے امریکی ڈالر کی بلیک مارکیٹ پر قابو پانے کے لیے روپے پر کنٹرول میں نرمی دکھائی اور پٹرول کی قیمتوں میں 16 فیصد اضافہ کیا۔
ایک سرکاری عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف پیٹرولیم اور توانائی کی موجودہ قیمتوں سے مطمئن نہیں۔‘
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں قیمتوں میں مزید اضافے کے خدشے کے پیش نظر ذخیرہ اندوزی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کو مجبوراً کہنا پڑا ’حکومت کا تیل کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘
دوسری جانب مشکلات کا شکار صنعتیں جدوجہد کر رہی ہیں کہ حکومت درآمدات کھولے۔ اس کے علاوہ ہزاروں شپنگ کنٹینرز بھی کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔