اسلام آباد میں احتجاج سے یونیورسٹیاں متاثر

ملک میں سیاسی عدم استحکام، مسلسل احتجاج، شدید موسم اور ان سے جڑی بیماریوں جیسے عوامل کی وجہ سے اکیڈمک کیلنڈر کی پاسداری مشکل ہو جاتی ہے۔

26 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں پولیس اہلکار مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کرتے ہوئے (اے ایف پی/ عامر قریشی)

دنیا بھر میں یونیورسٹیاں اکیڈمک کیلنڈر کی سخت پاسداری کرتی ہیں۔

میری پی ایچ ڈی کے پہلے دن ہی مجھے یونیورسٹی کا اکیڈیمک کیلنڈر دے دیا گیا تھا۔

اس کیلنڈر میں یونیورسٹی کی اگلے سال میں ہونے والی تمام اکیڈمک سرگرمیوں کی تاریخیں درج تھیں۔

میں نے اپنے پی ایچ ڈی کے چار سالوں میں کبھی یونیورسٹی کو اپنے اکیڈمک کیلنڈر سے ہٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کرونا کی عالمی وبا آئی تو یونیورسٹی فوراً آن لائن موڈ پر چلی گئی۔

وہ ایک غیر یقینی صورت حال تھی لیکن یونیورسٹی کی سرگرمیاں اکیڈمک کیلنڈر کے مطابق ہی منعقد ہو رہی تھیں۔

پاکستان میں یونیورسٹیاں اکیڈمک کیلنڈر تیار کرتی ہیں تاہم یہ کیلنڈر اکثر حتمی ثابت نہیں ہوتے۔

ملک میں سیاسی عدم استحکام، مسلسل احتجاج، شدید موسم اور ان سے جڑی بیماریوں جیسے عوامل کی وجہ سے اکیڈمک کیلنڈر کی پاسداری مشکل ہو جاتی ہے۔

ہر سمسٹر میں اچانک منعقد ہونے والی یونیورسٹی کی تقریبات کے باعث کئی چھٹیاں ہو جاتی ہیں۔

کبھی ڈینگی پھیلنا شروع ہو جاتا ہے تو کبھی سموگ پورے صوبے پر چھا جاتی ہے۔ یہ مسائل حل ہوں تو یونیورسٹیوں میں شدت پسند واقعات رونما ہونے لگتے ہیں اور جب ان حالات پر قابو پایا جائے تو کہیں نہ کہیں سے ملک گیر احتجاج کی کال دے دی جاتی ہے۔

احتجاج کا نام سنتے ہی حکومت اسلام آباد کو کنٹینر سٹی بنا دیتی ہے اور پورے ملک کی ہائی ویز اور موٹر ویز بند کر دیتی ہے۔ چند گھنٹوں میں تعلیمی اداروں کے بند ہونے کا نوٹیفکیشن بھی آ جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکول اور کالج کے طالب علم ایسے اچانک آ جانے والی چھٹیوں کو بے فکری سے بستر میں انجوائے کرتے ہوئے گزارتے ہیں لیکن یونیورسٹی کے طالب علم ایک وقت کے بعد ایسی چھٹیوں سے تھکنے لگتے ہیں۔

انہیں اس ڈگری کی بنیاد پر اپنی زندگی کا آغاز کرنا ہوتا ہے لیکن ملکی حالات کی وجہ سے بہت سے طالب علموں کو ان کی ڈگریاں مقررہ وقت پر نہیں مل پاتیں۔

اس سال خزاں میں شروع ہونے والے سمسٹر میں کئی اہم تعطیلات آئیں جن کا سبب پاکستان تحریکِ انصاف کے احتجاج تھے۔

اسلام آباد کی یونیورسٹیاں بار بار بند ہوئیں جس کی وجہ سے لاکھوں طالب علموں کا شدید تعلیمی نقصان ہوا۔

اس نقصان کو پورا کرنے اور اکیڈمک کیلنڈر کی پاسداری کے لیے کئی یونیورسٹیوں نے نومبر میں ہفتے کو بھی تدریسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس صورت حال کا اثر صرف طالب علموں پر ہی نہیں، بلکہ اساتذہ اور عملے کی زندگیوں پر بھی پڑا۔

وہ لوگ جو دور دراز علاقوں سے اسلام آباد پڑھائی یا کام کی غرض سے آئے ہوئے تھے، ان کے لیے ہفتے کے آخر میں اپنے گھروں کو جانا مشکل ہو گیا تھا اور سمسٹر کی منصوبہ بندی بھی خراب ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی کی حالیہ احتجاجی کال کے بعد بھی اسلام آباد میں تعلیمی ادارے سوموار سے بند ہیں۔ جنوری میں یہ سمسٹر کسی نہ کسی طرح مکمل ہو جائے گا مگر اس دوران جو تعلیمی معیار حاصل کرنا ضروری تھا، وہ مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکے گا۔

یونیورسٹیوں میں لیکچرز کے علاوہ ایک اہم عمل دفاع (ڈیفنس) بھی ہوتا ہے جس کی بنیاد پر طالب علموں کو ڈگریاں دینے کا فیصلہ دیا جاتا ہے۔

ایک طالب علم جو ہفتوں سے ڈیفنس کا منتظر ہو اور اس کے لیے ایک دن پہلے اسے بتایا جائے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اب وہ دفاع نہیں کر سکتا اور اس کی نئی تاریخ بعد میں دی جائے گی تو سوچیں اس کا کیا حال ہوگا۔

اس سے نہ صرف اس کی موجودہ ڈگری تاخیر کا شکار ہوتی ہے بلکہ اس کے مستقبل کے منصوبوں اور ارادوں پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

اگر وہ طالب علم بیرونِ ملک کسی یونیورسٹی کی سکالرشپ کے لیے درخواست دے رہا ہو اور ایسے حالات میں ڈیفنس (تحقیق کا دفاع) نہ ہونے کے سبب اسے مقررہ وقت پر اپنی ڈگری نہ مل سکے تو اس طالب علم کے لیے وہ سنہری موقع ضائع ہو جائے گا اور اس سے اس کی پوری زندگی ہی تبدیل ہو جائے گی۔

کسی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام اس کی ترقی کو کئی سال پیچھے دھکیل دیتا ہے۔

اس صورت حال میں تعلیمی ادارے ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ملک کے نوجوانوں کو معیاری تعلیم فراہم کر کے قوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر انہیں اپنے فرائض ادا کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور سیاسی کشمکش میں الجھا دیا جائے تو ملک کے مستقبل میں سوائے تاریکی کے کچھ نہیں دکھائی دے گا۔

پاکستان میں اس وقت سیاسی جماعتیں اور حکومت اپنے ذاتی مفادات کے لیے سرگرم ہیں جبکہ عوام کی فلاح و بہبود کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ ان تمام اداروں کو اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے مفاد میں کام کرنا چاہیے۔

سیاسی احتجاج اور بحرانوں سے چند افراد کے مفادات تو پورے ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اثرات عوام کی زندگیوں پر دیرپا اور منفی ہوتے ہیں۔

اگر ہمارے تعلیمی اداروں کو اپنی مکمل صلاحیتوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا تو ہم ایک پوری نسل کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مستقبل کو داؤ پر لگا دیں گے۔

اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور قوم کے مستقبل کو اپنے مستقبل کے لیے کام کرنے دیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ