پانچ ماہ قبل پاکستان کے صوبہ سندھ میں محمد فضل کی کریانے کی دکان سیلابی پانی میں بہہ گئی تھی لیکن آج اسے مضبوط بنیادوں کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر اس امید کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے کہ اگلی بار جب گاؤں سیلاب سے متاثر ہو تو اسے نقصان نہ پہنچے۔
28 سالہ فضل نے ایک غیر سرکاری تنظیم سے تعمیراتی کام کے لیے رقم ادھار لی تھی اور وہ چار لاکھ کے نقصان کے باوجود خود کو خوش نصیبوں میں شمار کرتے ہیں کیوں کہ بہت سے پاکستانی گذشتہ سال آنے والی تباہی سے باہر آنے کے لیے اب تک جدوجہد کر رہے ہیں۔
ضلع دادو کے گاؤں گوزو سے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے فضل نے بتایا: ’میں نے اپنی دکان کو دوبارہ ایک بلند جگہ اور بہتر انداز میں تعمیر کیا ہے۔‘
ملک کے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ حکام کا کہنا ہے کہ تاریخ کی بدترین آفات میں سے ایک اس سیلاب سے 17 سو سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔
اس سیلاب سے ملک میں تقریباً 10 لاکھ گھر اور کاروبار تباہ ہوئے۔
تقریباً 50 لاکھ افراد، جن میں زیادہ تر کا تعلق سندھ اور بلوچستان میں سے ہے، مون سون کی بارشوں اور پگھلتے گلیشیئروں کی تباہی کے کئی مہینوں بعد بھی سیلاب کے پانی کی زد میں ہیں۔
اس صورت حال میں بین الاقوامی ڈونرز نے گذشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا کرنے والے ملک میں بحالی اور تعمیر نو میں مدد کے لیے نو ارب ڈالر سے زیادہ رقم فراہم کا وعدہ کیا تھا۔
شدید تر ہوتے معاشی بحران میں پھنسے پاکستان نے ڈونر گروپس سے 16.3 ارب ڈالر مالیت سے بحالی کے منصوبوں کے نصف حصے کو پورا کرنے کے لیے فنڈز مانگے تھے۔
اب اس کا مقصد رقم کو ریزیلینئٹ ریکوری، ری ہیبلیٹیشن اینڈ ری کنسٹرکشن فریم ورک کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اس بحالی کی حکمت عملی کو فور آر ایف (4RF) کا نام دیا گیا ہے، جو طویل مدتی موسمیاتی مزاحمت اور مطابقت پیدا کرنے کے بارے میں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جانوں، ان کے ذریعہ معاش اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان سے بچانے کے لیے سیلاب کے خلاف دفاع کو بڑھانا ہوگا۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تیزی سے بڑھنے کے بعد فوری کارروائی ضروری ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمٰن نے گذشتہ ماہ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو بحالی سے پہلے ہی اگلی موسمیاتی آفات کا سامنا ہے۔ کیا ہوگا اگر رواں موسم گرما تازہ ہولناکیاں لے کر آئے؟ ہم وقت کے خلاف ایک دوڑ میں شامل ہیں۔‘
ماضی کے اسباق
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق 1950 اور 2011 کے درمیان پاکستان کو 21 بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے اس کی معیشت کو تقریباً 19 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جب کہ صرف 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے نقصان کا تخمینہ تقریباً 10 ارب ڈالر ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے جنیوا کانفرنس سے عین قبل یعنی پانچ جنوری کو کہا تھا کہ گذشتہ سال کے سیلاب سے متاثر ہونے والے تقریباً ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے 90 لاکھ افراد غربت کی دلدل میں پھنس جائیں گے۔
حال ہی میں خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے والے ماہر تعلیم امیر علی چانڈیو نے کہا کہ ’اس بار ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
بہت سے دوسرے ماہرین کی طرح وہ کہتے ہیں کہ تیز رفتار ترقی اور آبادی میں اضافے کے وقت سیلاب کے پانی سے نمٹنے کے ناقص انتظام کی وجہ سے کئی سالوں سے انسانی جانوں اور املاک کے نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔
سول سوسائٹی گروپ فشر فوک فورم کے چیئرپرسن مصطفیٰ میرانی نے کہا: ’قدرتی آبی گزرگاہوں پر تجاوزات کھڑی کر دی گئی ہیں۔ لوگوں نے آبی گزرگاہوں پر اپنے گھر بنا لیے ہیں۔ بغیر پلوں والی سڑکوں نے بھی پانی کا راستہ بند کر دیا ہے۔‘
سندھ پراونشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے عہدیدار اجے کمار نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بے لگام تعمیرات ایک پریشان کن عنصر ہے لیکن گذشتہ سال ’حقیقی نقصان‘ غیر معمولی اور شدید بارشوں کے باعث ہوا۔
دیہی ترقی کے مشیر اور زرعی تعلیم کے ماہر محمد اسماعیل کمبھار نے کہا کہ فوری طور پر ہونے والے نقصانات کی مرمت کے علاوہ اگر موسمیاتی مزاحمت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے جامع اور دور رس حکمت عملی درکار ہو گی۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں ایک کلائمیٹ ایکشن پلان، کلائمیٹ یوتھ پالیسی، کلائمیٹ سمارٹ ایگریکلچر اور لائیوسٹاک کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ جاننا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ فصلوں اور مویشیوں کے لیے انشورنس پالیسی متعارف کرائی جانی چاہیے۔‘
انہوں نے زیادہ خطرے والے علاقوں کی نقشہ سازی اور قدرتی آبی گزرگاہوں کو کھولنے پر زور دیا۔
ان کے مطابق: ’ساحلوں یا دریا کے کناروں کے ساتھ والے علاقوں میں یا سیلاب زدہ دیگر مقامات پر مکانات کو اونچے پلیٹ فارمز پر تعمیر کیا جانا چاہیے اور کھیتی باڑی کی بحالی کے لیے بہتر انداز اپنائے جائیں۔‘
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں سیلاب کی پیشن گوئی اور قبل از وقت وارننگ کے نظام کو بہتر بنانے اور پانی اور توانائی کے حالیہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کو فلڈ مینیجمنٹ سے جوڑنے کی سفارش کی گئی ہے۔
شفافیت
جنیوا میں ہونے والے فور آر ایف کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ حکومت سیلاب زدہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے فراہم کی گئی امداد کی ہر ایک پائی استعمال کرے گی جس میں ہنگامی اقدامات کی کامیابی کے لیے 27 لاکھ گھرانوں کو نقد گرانٹ کی تقسیم بھی شامل ہے۔
اس حکمت عملی کی تفصیلات میں تھرڈ پارٹی آڈٹ اور طریقہ کار کے لیے شفافیت اور بہتر اہداف پر اخراجات کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جنیوا اجلاس کے بعد کہا تھا کہ بحالی کے لیے وعدہ کی گئی تقریباً 90 فیصد رقم اگلے تین سالوں میں پراجیکٹ لون کے طور پر رول آؤٹ کی جائے گی۔ باقی امداد ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے سابق معاون برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا کہ اس رقم کو صحیح منصوبوں پر خرچ کرنے کو یقینی بنانا منصوبے کی طویل مدتی کامیابی کے لیے انتہائی اہم ہے۔
امین اسلم نے بتایا: ’اس فنڈنگ کی افادیت کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ان فنڈز کو کس حد تک شفاف طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کو ماحولیات سے مطابقت رکھنے والی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔‘
اس منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مالی امداد کا زیادہ بڑا حصہ تباہی سے متاثر ہونے والے لاکھوں لوگوں کے لیے فوری اور ضروری امداد کے لیے مختص کیا جانا چاہیے۔
ماحولیاتی کارکن احمد رافع عالم نے کہا کہ موسمیاتی مزاحمت، پائیدار اور موافقت پذیر بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنے کے لیے حکومت کی حکمت عملی پر عمل درآمد صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب مقامی حکام ایک پیچ پر ہوں گے۔
ان کے بقول: ’اس کام کے لیے ہمیں مقامی حکومتوں کو بھی شامل کرنے ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عالمی ڈونرز کی طرف سے نو ارب ڈالر کا وعدہ عالمی بینک کی جانب سے لگائے گئے 30 ارب ڈالر نقصان کے تخمینے سے بہت کم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزاحمت
دادو ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی چھ بچوں کی ماں 25 سالہ عزیزہ جیسے لوگوں کو فوری امداد کی سخت ضرورت ہے۔
انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ سیلابی پانی نے ان کے گھر کو تباہ کر دیا جسے ان کے خاندان نے اپنی بھینسیں فروخت کرنے کے بعد تعمیر کیا تھا۔
اب اس پورے خاندان کے پاس پناہ کے لیے ایک کمرے کی جھونپڑی ہے جو ٹھہرے ہوئے پانی سے گھرے ایک جزیرے پر واقع ہے۔
یہاں بیت الخلا بھی نہیں ہے اور عزیزہ اور ان کے شوہر بمشکل اتنا ہی کما پاتے ہیں جس سے وہ کھانا خرید سکیں، تعمیراتی سامان تو دور کی بات ہے۔
سیلاب کے وقت ان کے پڑوسی اللہ ودھایا کی بیوی جب بچے کو جنم دینے والی تھی تو انہیں اپنے گاؤں سے جوہی شہر تک پہنچنے کے لیے 20 کلومیٹر کا سفر کشتہ میں طے کرنا پڑا۔
اینٹوں کے بھٹے میں کام کرنے والے ودھایا نے کہا کہ سڑکیں اب زیر آب نہیں ہیں لیکن زندگی معمول پر آنے سے بہت کوسوں دور ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہمارے لیے ابھی زیادہ روزگار نہیں ہے کیونکہ دیہاتوں اور کھیتوں میں اب بھی سیلابی پانی کھڑا ہے۔ ہمیں جو امدادی پیک ملتے ہیں وہ کافی نہیں ہیں اور میرے پاس جو تھوڑا بہت سونا تھا وہ بیچ کر گزارا کر رہے ہیں۔‘
کئی جگہوں پر بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اور مقامی این جی اوز ماحول سے مطابقت والے گھروں کی تعمیر نو میں مدد کر رہی ہیں۔
سندھ کے ضلع جامشورو کے گاؤں پہلوان خان کھوسہ میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے فنڈز سے گاؤں والوں کو سیلاب سے تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو کے لیے رقم ادا کی ہے۔
مقامی این جی او ’ہینڈز پاکستان‘ نے 2012 سے اب تک سیلاب کے خلاف مزاحمت کرنے والے تقریباً 90 مکانات کی تعمیر نو میں لوگوں کی مدد کی ہے، مستریوں کو تربیت دی اور تکنیکی مدد فراہم کی ہے۔
ہینڈز کے چیف سروسز ایگزیکٹیو انیس دانش نے بتایا کہ ’ہمارے بنائے ہوئے ٹیپرڈ چھتوں والے 80 فیصد مکانات 2022 کے سیلاب سے بچ گئے۔‘