ماہرین فلکیات نے ستاروں کے ایک تفصیلی نقشے میں ’ایسی اشیا دریافت کی ہیں جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی تھیں۔‘
سائنس دانوں نے یورپین سدرن آبزرویٹری کی وزیبل اینڈ انفراریڈ سروے ٹیلی سکوپ فار ایسٹرونومی (وسٹا) سے لی گئی دس لاکھ سے زائد تصاویر کو اکٹھا کر کے ان کی مدد سے ایک بڑی تصویر بنائی۔
ستاروں کے اس جھرمٹ میں دھول کے موٹے بادلوں سے گھرے ہوئے چھوٹے ستاروں کو ایسے دکھایا گیا، جیسے وہ ابھی جنم لے رہے ہیں۔
حیرت انگیز تصاویر بنانے سمیت ان مشاہدات سے سائنس دانوں کو ستاروں کی پیدائش کے راز حل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
آسٹریا کی ویانا یونیورسٹی کے ماہر فلکیات اور نئی تحقیق کے رہنما سٹیفن مینگاسٹ کا کہنا ہے، ’ان تصاویر میں ہم روشنی کے انتہائی چھوٹے ماخذ کا بھی پتہ لگا سکتے ہیں، جیساکہ پہلی کبھی نہ دیکھی جانے والی چیزوں کو نمایاں کرتے سورج سے کہیں چھوٹے ستارے۔ اس سے ہمیں اس عمل کو سمجھ سکیں گے جو گیس اور دھول کو ستاروں میں تبدیل کر دیتا ہے۔‘
ستارے اس وقت بنتے ہیں جب گیس اور دھول کے بادل اپنی کشش ثقل کے تحت الگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن انہی جیسے بادلوں کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کا مشاہدہ کرنا مشکل ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ جیسا کہ ایک بادل سے کتنے ستارے نکل سکتے ہیں، اور ان میں سے کتنوں کو اپنے سیارے ملیں گے۔
اس عمل کو بہتر طریقے سے دیکھنے کے لیے ماہرین فلکیات نے یورپین سدرن آبزرویٹری کی دوربین استعمال کی تاکہ اس دھول کے اندر سے روشنی کو انفراریڈ کے ذریعے ریکارڈ کیا جا سکے۔ ان انفراریڈ ویولینتھ کو استعمال کرتے ہوئے، سائنسدان عام طور پر نظر سے پوشیدہ چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
پانچ سال کے عرصے میں انہوں نے ستاروں کی تشکیل والے پانچ قریبی مقامات کا جائزہ لیا اور 10 لاکھ سے زیادہ تصاویر جمع کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد ان سب کو جوڑ کر ایک بڑی تصویر بنائی گئی تاکہ پورے منظر نامے کو تفصیل سے دیکھا جا سکے۔
چونکہ ان مقامات کو طویل عرصے میں نسبتاً کئی بار دیکھا گیا تھا، لہذا جھرمٹ میں ناصرف ستاروں کی جگہ بلکہ ان کی حرکت بھی نظر آتی ہے اور ماہرین فلکیات کو یہ سیکھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ چھوٹے ستارے کس طرح سفر کرتے ہیں۔
اعداد و شمار سے پتا چل سکتا ہے کہ چھوٹے ستارے اپنی جائے پیدائش کیسے چھوڑتے ہیں اور ایسا کرتے ہی ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
اس کو مزید کام کی بنیاد کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جس میں ای ایس او کی زیر تکمیل انتہائی بڑی دوربین(ای ایل ٹی) کے مشاہدات بھی شامل ہیں۔
سٹیفن مینگاسٹ نے کہا، ’ای ایل ٹی کی مدد سے ہم غیر معمولی تفصیلات والے مخصوص علاقوں میں زوم کر کے دیکھ سکیں گے، جس سے ہمیں ان انفرادی ستاروں کا قریب سے نظارہ کرنے کا موقع ملے گا جو اس وقت وہاں بن رہے ہوں گے۔‘
یہ تحقیق ’وژن: دی وسٹا سٹار فارمیشن اٹلس‘ جرنل ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس میں شائع کی جا رہی ہے۔
© The Independent