خواتین کی مخصوص نشستیں: جمہوریت یا ’بندر بانٹ؟‘

قومی اسمبلی کی دستاویز کے مطابق: ’قومی اسمبلی کا رکن عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ مخصوص نشستوں پر جو خواتین رکن قومی اسمبلی بنتی ہیں، کیا وہ عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں؟

جنس کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت ہے تو جنس کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کا رکھا جانا کیا تضاد میں شمار کیا جائے گا؟ (تصویر: ریڈیو پاکستان)

کیا پارلیمان کی انتخابی اصلاحات کمیٹی اس سادہ سے سوال کا جواب دے سکتی ہے کہ قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں اشرافیہ کی بندر بانٹ ہے یا اس کے نام جمہوریت کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟

قومی اسمبلی کی دستاویز کے مطابق ’قومی اسمبلی کا رکن عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ مخصوص نشستوں پر جو خواتین رکن قومی اسمبلی بنتی ہیں، کیا وہ عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں؟

یہ خواتین نہ الیکشن میں حصہ لیتی ہیں، نہ انہیں کوئی براہ راست ووٹ دیتا ہے، نہ ہی ان کا کوئی حلقہ انتخاب ہوتا ہے لیکن وہ رکن قومی اسمبلی بن جاتی ہیں۔ کیا جناب ایاز صادق رہنمائی فرمایئں گے کہ کیوں اور کیسے؟

آئین کے آرٹیکل 25 میں کہا گیا ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حق دار ہیں، نیز یہ کہ جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا ۔

جنس کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت ہے تو جنس کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کا رکھا جانا کیا تضاد میں شمار کیا جائے گا؟

اگرچہ اسی آرٹیکل 25 کی ذیلی دفعہ 3 میں خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی اہتمام کی گنجائش دی گئی ہے لیکن جنس کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کے اس اہتمام کا خواتین کے تحفظ سے کیا تعلق ہے؟

اسی طرح آئین کے آرٹیکل 34 میں قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات بھی کی گئی ہے لیکن اس کا قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے کیا واسطہ ہے؟

بظاہر یہ قانون قومی زندگی میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کے لیے وضع کیا گیا لیکن عملاً یہ ہوا کہ پارلیمان کے دروازے اس قانون کے باوجود خواتین پر نہ کھل سکے اور صرف چند گھرانوں اور چند شہروں کی خواتین ہی اس قانون سے فیض یاب ہوئیں۔

مخصوص نشستوں پر انتخاب کے لیے سیاسی جماعتیں اپنی خواتین کی ایک فہرست جمع کروا دیتی ہیں کہ ہماری طرف سے مخصوص نشستوں کی امیدوار یہ خواتین ہیں۔

یعنی کسی جماعت کے حصے میں عام انتخابات کے بعد خواتین کی جتنی مخصوص نشستیں آتی ہیں، اس جماعت کی طرف سے جمع کرائی گئی فہرست میں پہلے نمبروں پر موجود اتنی ہی خواتین قومی اسمبلی کی رکن بن جائیں گی۔

سیاسی جماعتوں کی یہ فہرست بتاتی ہے کہ اس قانون کی آڑ میں سیاسی اشرافیہ کیا کھیل کھیلتی چلی آ رہی ہے۔

یہ خواتین نہ الیکشن میں حصہ لیتی ہیں، نہ انہیں کوئی براہ راست ووٹ دیتا ہے، نہ ہی ان کا کوئی حلقہ انتخاب ہوتا ہے لیکن وہ رکن قومی اسمبلی بن جاتی ہیں۔

2018 کے انتخابات میں تین بڑی جماعتوں کی جانب سے پیش گئی فہرست کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

مسلم لیگ نے پنجاب سے 27 نام دیے۔ ذرا دیکھتے ہیں یہ شخصیات کون تھیں:

سینیٹر جعفر اقبال کی اہلیہ عشرت اشرف اور ان کی بیٹی زیب ظفر، ان کی قریبی عزیزہ مائزہ حمید، یعنی ایک خاندان سے تین خواتین۔ بیگم عشرت اشرف صاحبہ کا نام قومی اسمبلی کی فہرست میں بھی رکھا گیا اور صوبائی اسمبلی کی فہرست میں بھی۔

پرویز ملک اور ان کے بیٹے جنرل نشستوں پر الیکشن لڑ رہے تھے، ساتھ ہی ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک کا نام خواتین کی نشست پر ترجیحاً دوسرے نمبر پر تھا۔

فہرست میں پہلے نمبر پر طاہرہ اورنگزیب تھیں، انہی کی بیٹی مریم اورنگزیب اس فہرست میں چوتھے نمبر پر تھیں۔

خواجہ آصف کی اہلیہ مسرت آصف اور ان کی بھتیجی شزہ فاطمہ کا نام بھی فہرست میں موجود تھا۔ سابق مشیر برائے امور خارجہ طارق فاطمی کی اہلیہ ردا فاطمہ کا نام بھی قومی اسمبلی کی مخصوص نشست کے لیے فہرست میں شامل تھا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی جیت کے امکانات زیادہ تھے، اس لیے صوبائی اسمبلی کے لیے مخصوص نشستوں کی فہرست میں پہلے اور دوسرے نمبر پر فریال تالپور اور ڈاکٹر عذرا پلیجو کا نام تھا جو آصف زرداری کی بہنیں ہیں۔

تیسرے نمبر پر شہلا رضا تھیں۔ نثار کھوڑو کی صاحب زادی ندا کھوڑو کا نام بھی شامل تھا اور پروین قائم خانی اور ان ہی کی بیٹی روبینہ قائم خانی بھی فہرست میں شامل تھیں۔

پی ٹی آئی نے لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار جمشید چیمہ کی اہلیہ مسرت جمشید چیمہ کو فہرست میں شامل کیا۔ صوبائی فہرست میں شامل نفیسہ خٹک اور ساجدہ ذوالفقار پرویز خٹک کی قریبی عزیزہ تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی اسمبلی کی فہرست میں نورین ابراہیم بھی تھیں، جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم خان کی بہو اور اعظم سواتی اور شاہ فرمان کی قریبی عزیزہ ہیں۔

یعنی جو اصول خواتین کو پارلیمان میں لانے کے لیے نرم کیے گئے، ان کا فائدہ خواتین کو نہیں بلکہ چند شہروں کی اور چند گھرانوں کی خواتین کو ہی ملا۔

فافن (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) کی دو فروری 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی 57 فیصد خواتین صرف چھ بڑے شہروں اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی رہائشی ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین میں سے 59 فیصد کا تعلق لاہور سے ہے۔

سندھ اسمبلی میں 66 فیصد کا تعلق کراچی سے ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں 73 فیصد کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور خیبر پختونخوا میں 50 فیصد کا تعلق پشاور سے ہے۔

ملک کے 136 اضلاع میں سے 105 اضلاع ایسے ہیں جن میں سے مخصوص نشستوں پر ایک بھی رکن قومی اسمبلی نہیں ہے۔

اسی طرح پنجاب کے 23، بلوچستان کے 32، خیبر پختونخوا کے 30 اور سندھ کے 20 اضلاع میں قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی نمائندگی نہیں ہے۔

چند بڑے شہروں کی سیاسی اشرافیہ نے اس قانون کی آڑ میں اپنے گھر کی خواتین کو الیکشن کے تکلف کے بغیر اسمبلیوں میں لا بٹھایا اور اس واردات کو خواتین کے حقوق کا نام دیا گیا ہے۔

کیا پارلیمان کی انتخابی اصلاحات کمیٹی، اصلاحات کے اس بھاری پتھر کو اٹھانے کی ہمت رکھتی ہے یا یہ اصلاحات کمیٹی محض دکھاوے کی ایک مشق ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ