قومی اسمبلی نے اتوار کو آئندہ مالی سال 24-2023 کے لیے 14.48 کھرب روپے مالیت کے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی۔
آج قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے تحریک پیش کی کہ مالی بل زیر غور لایا جائے۔ ایوان کی جانب سے تحریک کی منظوری کے بعد وزیر خزانہ نے مالی بل ایوان میں پیش کیا۔
اے پی پی کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے یکے بعد دیگرے بل کی تمام شقوں کو ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا جس میں مولانا عبدالاکبر چترالی، سائرہ بانو، نثار چیمہ، زہرہ ودود فاطمی، نواب شیر وسیر، آسیہ عظیم اور دیگر مختلف شقوں پر ترامیم پیش کیں جن کو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔
تاہم مولانا عبدالاکبر چترالی کی ایک ترمیم ایوان نے بل میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔
وزیر خزانہ نے تحریک پیش کی کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کو قانونی تحفظ دینے کے لیے مالی بل 2023-24 منظور کیا جائے، جس کی قومی اسمبلی نے منظوری دے دی۔
سینیٹ تجاویز کی روشنی میں وزیر خزانہ کی طرف سے مالی بل 2023-24 میں پیش کردہ ترامیم کی بھی ایوان نے منظوری دی۔
نو جون کو ایوان میں پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ کی تجاویز پر ازسر نو غور و خوض کے بعد وزیر خزانہ نے ایوان میں بجٹ بحث اور سینیٹ تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ریونیو اہداف اور بعض دیگر امور پر اعداد وشمار میں بعض تبدیلیاں لانے کا اعلان کیا جس کے مطابق ایف بی آر کے محاصل کا ہدف 9200 ارب سے بڑھ کر 9415 ارب روپے ہو گیا، صوبوں کا 5276 ارب روپے سے بڑھ کر 5390 ارب روپے ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح وفاقی حکومت کے اخراجات 14460 ارب روپے سے بڑھ کر 14480 ارب روپے ہو گئے، پنشن کا حجم 761 ارب روپے سے بڑھ کر 801 ارب روپے ہو گا، سبسڈی کا حجم 1064 ارب روپے جبکہ گرانٹس کا حجم 1405 ارب روپے ہو گا۔
دوسری جانب وزیر خزانہ نے وضاحت کی ہے کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران دو پنشن کی صورت میں ایک پنشن وصول کر سکیں گے۔
انہوں نے آج قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ اور دیگر ارکان کی طرف سے اٹھائے جانے والے نکات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے جو افسران دو پنشن وصول کر رہے تھے، اب وہ ایک پنشن وصول کر سکیں گے، ایک سے 16 گریڈ والے ملازمین پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ یہاں لوگ آرمی چیف، پھر چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر پاکستان کی پنشن لیتے رہے ہیں جس کا غریب ملک متحمل نہیں ہو سکتا، اسی طرح پنشنر کی بیوہ کے انتقال پر پسماندگان کے لیے 10 سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشن اصلاحات ضروری ہے کیونکہ 800 ارب روپے سالانہ تک اس کا حجم بڑھ چکا ہے، کئی ممالک کے برعکس پاکستان میں پنشن کے حوالے سے صورت حال بہتر ہے۔