’چیتے نے کتے سے پوچھا: تم نے انسانوں کو کیسا پایا؟
کتے نے جواب دیا: جب وہ کسی کو حقیر سمجھتے ہیں تو اسے کتا کہتے ہیں۔
چیتا: کیا تم نے ان کے بچوں کو کھایا؟
کتا: نہیں۔
چیتا: کیا تم نے انہیں دھوکہ دیا؟
کتا: نہیں۔
چیتا: کیا تم نے ان کے مویشی مارے؟
کتا: نہیں۔
چیتا: کیا تم نے ان کا خون پیا؟؟
کتا: نہیں۔
چیتا: کیا تم نے ان کو میرے حملوں سے بچایا؟
کتا: ہاں۔
چیتا: انسان بہادر اور ہوشیار کو کیا کہتے ہیں؟
کتا: وہ اسے چیتا کہتے ہیں۔
چیتا: کیا ہم نے تمہیں شروع سے مشورہ نہیں دیا تھا کہ ہمارے ساتھ چیتا بن کر رہو مگر تم نے انسانوں کے تحفظ کا ٹھیکے دار بننا پسند کیا۔
میں ان کے بچوں اور مویشیوں کو مارتا ہوں، ان کا خون پیتا ہوں، ان کے وسائل اور محنت کھا جاتا ہوں، اس کے باوجود نہ صرف وہ مجھ سے ڈرتے ہیں بلکہ اپنے ہیروز کو چیتے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
تمہیں یہ سیکھنا چاہیے کہ انسان اپنے جلادوں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں اور اپنے وفاداروں اور ہمدردوں کی توہین کرتے ہیں۔‘
(ہسپانوی ادب کے انتخاب ’غلامی کی آخری رمق‘ سے اقتباس)۔
میں نہیں جانتا کہ یہ واقعی ہسپانوی ادب سے انتخاب ہے یا نہیں مگر بات بہت کمال ہے۔
ویسے تو جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اس تحریر پر بھی اعتراض کر سکتی ہیں کہ اس میں کتوں کے متعلق جو ہتک آمیز گفتگو کی گئی ہے اس سے کتوں کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ ایسی کسی تنظیم کا عہدے دار اٹھ کر کتوں کی جانب سے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دے، مگر کتے چونکہ انسانوں کے وفادار ہوتے ہیں اس لیے وہ یقیناً اس بات کی اجازت نہیں دیں گے۔
جانوروں کے حقوق کی بات کریں تو آج کل فلموں کے شروع میں یہ تحریر لکھی ہوتی ہے کہ اس فلم کے بنانے کے دوران کسی جانور کو گزند نہیں پہنچا اور نہ ہی کسی جانور کی جان لی گئی ہے۔
میں جب بھی یہ اعلانِ دست برداری یا disclaimer پڑھتا ہوں تو مجھے بہت عجیب لگتا ہے.
ہم جانوروں کے بارے میں تو لکھ دیتے ہیں کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا مگر انسانوں کے بارے میں یہ حلف نامہ نہیں دے سکتے کہ اس فلم کی تیاری میں شامل تمام فنکاروں اور پروڈکشن عملے کو ان کے کام کی مکمل اور جائز ادائیگی کر دی گئی ہے اور کسی کا حق نہیں مارا گیا۔
انسانوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ چیتے کی کتے کے ساتھ گفتگو نہایت مدلل ہے، انسان اسی سلوک کا مستحق ہے جو اس کے ساتھ شیر، چیتے اور دوسرے خونخوار جانور کرتے ہیں۔
گدھوں، گھوڑوں اور کتوں جیسے معصوم اور وفادار جانوروں کے ساتھ انسان کا سلوک خاصا توہین آمیز ہوتا ہے، خاص طور سے گدھے کو تو ہم سرے سے کوئی جاندار مخلوق ہی نہیں سمجھتے۔
جو شخص ہمیں احمق نظر آتا ہے اسے ہم حقارت سے گدھا کہتے ہیں، حالانکہ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن تھی ڈیموکریٹ نہیں۔اب دیکھیے میں نے بھی وہی عام انسانوں والی بات کر دی!
بات چیتے اور کتے سے شروع ہوئی تھی اور گدھوں تک آن پہنچی۔ بے شک گدھا ایک مظلوم اور خدمت گزار جانور ہے، مگر محاورے کی حد تک بہرحال اسے حماقت کا استعارہ ہی سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ یہ کہنا کہ گدھے اور گھوڑے برابر نہیں ہوتے۔
تاہم ہمارے ہاں یہ محاورہ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے، ہمارا نظام کچھ اس قسم کا ہے کہ یہاں گدھے، گھوڑے، خچر، شیر، چیتے سب برابر ہیں۔
یہ نظام نالائق اور قابل لوگوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرتا ہے بلکہ سچ پوچھیں تو یہاں نالائق لوگ زیادہ ترقی پاتے ہیں، خاص طور سے اگر وہ سرکار میں ہوں۔
سرکار میں ایسا کوئی نظام نہیں جو گدھوں اور گھوڑوں میں تمیز کر سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہسپانوی کہاوت میں بے شک حقیقت ہی بیان کی گئی ہے مگر کیا یہ حقیقت ہمیں اپنے بچوں کو بھی بتانا چاہیے اور کیا اسے نصاب میں شامل کرنا چاہیے؟
اصولاً تو ہمیں بچوں کو وہ تمام اصول بتانے چاہییں جن کی بنیاد پر یہ دنیا کام کرتی ہے، جیسے کہ سفاکی اور بےانصافی، لیکن ظاہر ہے کہ بچوں کو اس قسم کی کہاوتیں سکول میں نہیں پڑھائی جاتیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ اگر ہم اپنے بچوں کو یہ بتائیں گے کہ اس دنیا میں انسان اپنے سے طاقتور کے سامنے سر جھکا دیتا ہے اور ضرورت پڑنے پر کمزور کو کچل دیتا ہے تو پھر اس دنیا سے رہی سہی اخلاقیات کا جنازہ بھی اٹھ جائے گا۔
دنیا کے یہ اصول بچوں کو جلد یا بدیر پتا چل ہی جاتے ہیں لہٰذا ہمیں ان کی معصومیت ختم کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔
ہسپانوی کہاوت میں جس کتے کا چیتے سے مکالمہ ہے وہ کتا کوئی بہت شریف النفس قسم کا لگتا ہے، جس کے پاس چیتے کے دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اگر کوئی سمجھ دار کتا ہوتا تو چیتے کو جواب دیتا کہ اب انسان میری توہین نہیں کرتے بلکہ مجھے اپنے ساتھ سلاتے ہیں، مجھ سے پیار کرتے ہیں اور مجھے گھر کے فرد کی طرح رکھتے ہیں جبکہ تمہارا شکار کر کے تمہاری کھال اپنے ڈرائنگ روم کی دیوار پر ٹانگ دیتے ہیں۔
لیکن کتا اگر چیتے کو ایسا جواب دیتا تو عین ممکن ہے کہ چیتا اسے وہیں چیر پھاڑ کرکے کھا جاتا۔ اسی لیے پیارے بچو، اس کہانی سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ سچ وہی ہے جو طاقت ور کہہ دے، اگر آپ اس کے سچ کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ جان لینا کہ اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔
کیا آپ یہ قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں؟
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔